ڈیل نوڈیل

میں جمعے کی نمازپڑھ کرمسجدسے باہرنکلاتوحسب دستورپھل بیچنے والے چیخ چیخ کرلوگوں کواپنی طرف متوجہ کررہے تھے۔کوئی اپنے پھل کی خصوصیات گنوارہاتھاتو کوئی قیمت میں کمی کی خبرنشرکررہا تھا۔ اچانک میری نظرایک ٹھیلے پرپڑی۔اس پرسیب بہت خوبصورتی سے سجے ہوئے تھے۔ساتھ ہی اسکامالک بھی کھڑاتھالیکن اس کارویہ دیگرپھل فروشوںسے مختلف تھا۔وہ ایک شان بے نیازی سے منہ موڑے سگریٹ کے دھویں سے مرغولے بنارہاتھا۔میں اس کے قریب گیااوربھاؤ پوچھے۔اس نے کہا’’صاحب یہ سیب فروخت کے لیے نہیں ہیں‘‘۔میں نے کہا’’کیوں‘‘؟اس نے جواب دیا:’’یہ تمام سیب فلاںصاحب نے خریدلیے ہیں‘‘۔ میں نے کہا:’’بھئی اس میں سے ایک کلوسیب مجھے بھی دے دو‘‘۔اس نے جواباًکہا:نہیںصاحب!یہ امانت میں خیانت ہوگی اورپھرصاحب ناراض ہوجائینگے‘‘۔

اچانک میرے ذہن میں ایک دھماکاہوا۔مجھے یادآیاکہ میں نے بھی تواپنی کوئی چیزبیچ دی ہے اوراب وہ امانتاًمیرے پاس ہے۔اگرمیں اس چیزکی حفاظت نہ کرپایاتوسوداکینسل ہوجائے گااورمیں خساراپانے والوںمیں سے ہوجاؤں گا۔وہ چیزکیاہے؟میری جان اورمیرامال ہے۔جومیں نے خداکو جنت کے عوض بیچ دیئے ہیں۔سورہ توبہ میں ارشادخداوندی ہے!

اِنَّ اللهَ الشترٰي مِنَ المؤمنين انفسهم واموالهم بانّ لهم الجنة
ترجمہ: بیشک اللہ نے مومنین کے جان ومال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔

ہم میں سے ہرشخص جوخداکی بندگی کادعویٰ کرتاہے اپنی جان ومال کاسوداکرچکاہے۔اب یہ کسی کی امانت ہے۔اس کی ہرحرکت،اس کاہرپہلواوراس کاہر اظہار خدا کی مرضی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ہمارا یہ مال بھی خداکوبیچاجاچکاہے۔ہمارابینک بیلنس،ہمارامکان،ہمارابزنس،ہماری اولادغرض ہرشے بک چکی ہے۔اب توہمیں ان چیزوں کی حفاظت کرنی ہے۔اس حفاظت کامطلب یہ ہے کہ انہیں خداکی مرضی کے مطابق رکھاجائے۔اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جائے اوراس کی مرضی کے مطابق ان میں اضافہ یاکمی کی جائے۔اس سودے کے بعدہماری جان اورہمارامال ہمارانہیں رہتابلکہ خداکاہوجاتاہے۔ہماری مرضی خداکی خواہش کے تابع ہوجاتی ہے۔ہماراسونا جاگنا، اٹھنابیٹھنا، دوستوں سے تعلقات، پڑوسی سے برتاؤ، اولادسے محبت اوردشمنوں سے رویہ غرض ہر حرکت پرخداکی مرضی کے خلاف تصرف نہ ہوجائے۔

یہ جان ومال کاسودااختیاری نہیں بلکہ لازمی ہے۔اگرہم اس ڈیل کوکینسل کرینگے تویہ نہیں کہ جان چھوٹ جائے گی۔اس ڈیل کی کامیابی کاانعام جنت کے باغات ہیں اوراس ڈیل کی ناکامی کانتیجہ جہنم کے گڑھے۔

تبصرہ کیجئے