بلاگ کا تعارف


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یہ بلاگ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ڈاکٹرمحمد عقیل کا ہے۔ اس تحریر کا مقصد مصنف کا تعارف اور بلاگ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالنا ہے تاکہ پڑھنے والو ں کے ذہن میں پس منظر واضح رہے۔
مصنف کا تعارف:
میرا نام محمد عقیل ہے اور میں کراچی کی ایک یونی ورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوں۔ میں درس و تدریس سے گذشتہ بائیس سالوں سے وابستہ ہوں۔ میں نےایم کام کراچی یونیورسٹی سے سن ۱۹۹۶ میں مکمل کیا جبکہ ایم فل (سوشل سائنس-اکنامکس ) سے کیا۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی بھی سوشل سائنس اکنامکس میں حاصل کی۔۔
سوشل سائنس میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے میری اسپیشلائزیشن سماجی اور مذہبی موضوعات سے بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ میری ساری دلچسپی اسلام کے تناظر میں سماجی و معاشرتی معاملات کو زیر بحث لانے میں ہے۔ میرے آرٹیکل ماضی میں ایک مقامی ماہانہ میگزین "انذار” میں باقاعدگی سے چھپتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مضامین جسارت میں بھی شایع ہوچکے ہیں۔ اکثر بلاگز اور ویب سائٹس پر میرے مضامین وقتاّّ فوقتاّّ شایع ہوتے رہتے ہیں۔ میرے کئی ریسرچ پیپرز مختلف جرنلوں میں اکنامکس اور فائنانس میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان تمام مضامین اور تحریروں کا مقصد سوسائٹی کے غلط رویوں کی نشاندہی کرنا، انکی اصلاح کرنا، اور ان پر لوگوں کو متنبہ کرنا ہے۔
میرا مسلک کیا ہے؟
میرا تعلق کسی جماعت، تنظیم یا فرقے سے نہیں۔ چونکہ میں ریسرچ کی فیلڈ سے منسلک ہوں اس لئے میں جو کچھ بھی قرآن و سنت پر تحقیق سے دریافت کرتا ہوں اسے قارئین کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔میرا اصل مذہب قرآن اور سنت کی اتباع ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس بلاگ کے مقاصد و اہداف کیا ہیں؟
اگر غور سے دیکھا جائے تو پاکستانی سوسائٹی دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طبقہ روایتی مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے اور دوسرا جدید یت پسند لوگوں کا ہے۔ علماء حضرات کا تعلق چونکہ روایتی گروہ سے ہے اس لئے عام طور پر ان کا رابطہ جدید پڑھے لکھے طبقے سے نہیں ہوپاتا۔ اس جدید پڑھے لکھے طبقے میں ایک بڑی تعداد ایسے مخلص لوگوں کی ہے جو دین کے ساتھ اخلاص رکھتے اور اسے سمجھ کر اپنی زندگیوں میں لانا چاہتے ہیں۔ لیکن قدیم روایتی علماء سے ان کا مناسب رابطہ نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنے سوالات و مسائل کا تسلی بخش جواب نہیں تلاش کرپاتے اور دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس بلاگ کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی علمی اور عملی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا، ان سے بچنے کے لئے حل تجویز کرنا اور تربیت کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ لوگ اللہ کی بندگی اختیار کرکے دنیا و آخرت کی کامیابی کے مستحق بن جائیں۔
دوسرا مقصد اس بلاگ کے ذریعے اس جدت اور قدامت پسند گروہوں میں کمیونکیشن گیپ کو کم کرنا اور اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کے اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ لیکن اس مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسلام کے ابدی اصولوں میں ترمیم کردی جائے۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا مفہوم محض پریزینٹیشن کی تبدیلی ہے اور اس سے زیادہ کچھ اور نہیں۔
اس بلاگ کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو فرقہ واریت اور مسلکی تعصب سے بلند کرنے کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کہ جائے جس کے ذریعے لوگ خالص قرآن اور سنت کے ذریعے دین کی تعلیمات جان سکیں۔
ایک اور مقصد مسلمانوں کو ان کے حقیقی ورثے یعنی اخلاقیات کو اپنانے کی دعوت دینا ہے۔ اسلام محض چند عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ اخلاقیات کو بھی شامل کرتا اور انہیں عبادات جیسی اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ جس طرح نماز ، روزہ، حج اور زکوٰۃ کو ترک کرنا گناہ میں آتا ہے ویسے ہی جھوٹ، غیبت، بہتان، حسد، کینہ، حرص اور زنا بھی بڑے گناہوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس بلاگ کا ایک اہم ٹارگٹ مسلمانوں کو ان گناہوں پر متنبہ کرنا اور ان سے بچنے پر تعلیم اور تربیت فراہم کرنا ہے۔
بلاگ کن اجزا ء پر مشتمل ہے؟
یہ بلاگ صرف مضامین پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں ایک فرد کی تعلیم، اصلاح اور تربیت کے جدید ٹولز موجود ہیں۔ ان میں "مسلم شخصیت کو جانچنے کا کیلولیٹر، رمضان ورک بک ، اصلاحی ورکشاپ، تربیتی وڈیوز، بچوں کی تربیت پر ایک مکمل گائیڈ، آن لائن عربی پروگرام، قرآنی تفاسیر کا آن لائن تقابلی مطالعہ اور دیگر پروگرامز شامل ہیں۔
ان ٹولز کے علاوہ اس بلاگ کے ذریعےآپ کے مذہبی اور سماجی سوالات اور مسائل کا جواب بھی فراہم کیا جاتا ہے۔اسکے ساتھ ہی آپ کے تبصروں کو شایع کرتا ہے تاکہ دو رخی کمیونکیشن کے ذریعے ایک مثبت مکالمے کی فضا پیدا کی جاسکے۔
اس مشن میں تعاون کس طرح کیا جائے؟
اس مشن میں تعاون کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ اس کی کامیابی کے لئے اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہماری ان کاوشوں کو قبول فرمائیں اور اسے دنیا و آخرت کی فلاح کا ذریعہ بنائیں۔
تعاون کی ایک شکل یہ ہے کہ اس بلاگ پر شایع ہونے والے مضامین اور پروگراموں کا مطالعہ کریں اور ان پر اپنے مثبت یا تنقیدی کمنٹس دیں تاکہ کسی بھی غلطی کی جانب جوع کرکے اس کی اصلاح کرلی جائے۔
ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان مضامین کو انٹرنیٹ ، پرنٹ آؤٹ یا کسی اور ذریعے سے لوگوں میں پھیلایا جائے تاکہ اللہ کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ اسی کے ساتھ ہمارا معاشرہ ایک صالح اور پاکیزہ سوسائٹی میں تبدیل ہوسکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ ایک صدقہ جاریہ ہوگا اور اس کا اجر ہمیں قیامت تک ملتا رہے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تب بھی یہ یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ ہمارا کام لوگوں تک پہنچادینا ہے، اور ہم لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجے گئے ہیں۔چنانچہ اصل مقصد دعوت کی کامیابی یا ناکامی نہیں بلکہ اللہ کی رضا کا حصول ہے جو دو نوںصورتوں میں ہمیں مل سکتی ہے۔
تقبل اللہ منی ومنکم
ڈاکٹر محمد عقیل

13 responses to this post.

  1. Posted by گمنام on 09/01/2020 at 9:07 شام

    أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴿٢٤﴾

    [47:24]
    تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں

    اس آیت میں اللہ نے قرآن میں غور کرنے کا حکم دیا ، اور جو غور نہیں کرتے انکی مثال یہ ہے کہ ان کے قلوب پر قفل پڑھے ہوئے ہیںَ

    قرآنی تعلیمات کے لئے اس پیج کی پوسٹ پڑھیں۔۔۔
    اور اپنے سب friends کو اس پیچ میں invite کریں۔۔
    نیچے دیئے گئے Link پر کلک کریں۔۔۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    https://www.facebook.com/quraniinqilab/
    https://www.facebook.com/quraniinqilab/

    جواب دیں

  2. السلام علیکم استاد محترم

    ایک گزارش یہ ہے کہ جہاں پر بھی عربی لکھی جایے ساتھ اس کا ترجمہ دیا جائے تا کہ ہم طوطے سے انسان بن سکیں. میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے. اگر شروع سے ہی قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ لازم کردیا جاتا تو کچھ نہ کچھ ہم جاہلوں کے پلے پڑ ہی جاتا. اس نے تو کہا ہے کہ اگر پہاڑ پر نازل کرتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا اور ہم اتنے سنگ دل…. نہیں… بات یہ ہے کہ یا عربی سمجھاتے یا ترجمہ لازم کرتے تواس وطن میں خچر کم ہوتے. یہ قوم ہیجڑوں پرمشتمل ہے کہ نہ دین میں نام کما سکی نہ دنیا میں. اللہ ہی ہے جو کشتی پار لگا دےورنہ ہم نے تو دنیا و آخرت تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے.

    جواب دیں

  3. Posted by The Real Islam on 18/07/2014 at 4:31 شام

    السلام علیکم

    بہت عمدہ مضمون ہے۔ کیا آپکی رائے میں نبی ﷺ کے دور میں موجود مشرکین پر بھی اسی قانون دینونت کا نفاذ کیا گیا ، یعنی جب نبی ﷺ کی سالہا سال کی دعوت کے ذریعے اتمام حجت ہو چکنے کے بعد صحابہ کرام کو ان مشرکین سے جنگ کا حکم دیا گیا اورانہیں بتا دیا گیا کہ یا تو اسلام قبول کرلو یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ؟

    شکریہ۔

    جواب دیں

  4. Posted by Malik on 18/10/2012 at 11:27 شام

    Aqil sahib salam alaikum

    I like to share with you my humble research about Hazrat Umar,appreciate if you can send your Email address to me on the following address
    malik.ashtar72@yahoo.com
    wassalam

    جواب دیں

تبصرہ کیجئے