دسمبر 2012 اور دنیا کا اختتام

پچھلے کچھ عرصے سے دنیا بھر کے میڈیا اور انٹرنیٹ پر دسمبر 2012 کا بہت زیادہ چرچاہے ۔ اس کا سبب وہ پیش گوئی ہے جس کے مطابق دسمبر 2012 کی 21 تاریخ کو ہماری دنیا ایک زبردست تباہی کی زد میں آئے گی جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر اہل زمین کی زندگی ختم ہوجائے گی۔ اس پیش گوئی کی اساسات کیا ہیں یہ اپنی جگہ خود ایک تفصیلی موضوع ہے ، تاہم میں اختصار سے اس کا ذکر کر دیتا ہوں ۔ اس کی پہلی بنیاد قدیم امریکی تہذیب مایا کا وہ کیلنڈر ہے جو اس تاریخ یعنی 21 دسمبر 2012 کو ختم ہوجاتا ہے ۔ یہ تہذیب یورپین اقوام کے امریکہ آنے سے قبل وسطی امریکہ کی غالب تہذیب تھی جس کا دور عروج 250 عیسوی سے 900 عیسوی کے زمانے کا ہے ۔ یہ قوم اپنے کیلنڈر کی بنیاد پر فلکیاتی مظاہر جیسے سور ج یا چاند گرہن وغیرہ کے بارے میں درست پیش گوئیاں کیا کرتی تھی۔

یہی تاریخ چین کے قدیم ترین ٹیکسٹ ایچنگ (I Ching) کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہے جو مستقبل کا حال بتانے کے لیے زمانۂ قدیم سے چین میں استعمال ہوتا ہے ۔ ٹیرنس مکینا (Terence McKenna) نامی ایک امریکی نے ایچنگ کو بنیاد بنا کر ایک پیچیدہ حساب کتاب سے یہ ثابت کیا کہ 21 دسمبر 2012 کو یہ دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی کر رہا ہے ۔ دور جدید میں انٹر نیٹ پر استعمال ہونے والا ایک سافٹ وئیر (Web Bot ) جو اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے پیش گوئیاں کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کے مطابق بھی یہی تاریخ دنیا کے اختتام کی تاریخ ہے ۔ یہ سافٹ وئیر پوری دنیا میں لوگ انٹر نیٹ پر جو الفاظ استعمال کر رہے ہوتے ہیں ان کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر اہم واقعات اور رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے ۔

یہ پیش گوئیاں اپنی اساسات میں کس حد تک مستند ہیں ، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا میں انہوں نے غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے ۔ بڑ ے بڑ ے مغربی اخبارات اور چینلز اس ¦�;یش گوئی کو کوریج دے رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ پر اس پس منظر میں باقاعدہ ویب سائٹس اور ڈسکشن گروپ قائم ہیں ۔ اس موضوع پر متعدد کتابیں شائع ہورہی ہیں ۔ معروف ٹی وی چینل ’ہسٹری‘ اور ’ڈسکوری‘ نے اس موضوع پر ڈاکومنٹریز بنائی ہیں ۔ جبکہ حال ہی میں ہالی وڈ میں اس موضوع پر ایک فلم بنائی گئی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ میں اس تاریخ پرپیش آنے والی تباہی سے بچنے اور بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ سروائیول (Survival) گروپ قائم ہو چکے ہیں ۔

پیش گوئی غلط سہی مگر۔ ۔ ۔
میں نے اس پیش گوئی کی اساسات کو غور سے دیکھا ہے ۔ اس کی بنیادیں کوئی علمی حقیقت نہیں بلکہ ظن و تخمین اور اوہام پرستی ہیں ۔ میری پختہ رائے یہ ہے کہ 21 دسمبر 2012 کے حوالے سے پھیلائی جانے والی تمام تر سنسنی خیزی محض میڈیا کی کرشمہ سازی ہے ۔ سائنسدانوں اور اہل علم کی بھی یہی رائے ہے اور وہ اسے اس مشہورِ عالَم فراڈ یعنی Y2K سے تشبیہ دے رہے ہیں جس کا مشاہدہ دنیا نے سن 2000 کے آغاز پر کیا تھا جس میں برسوں تک یہ سنسنی پھیلائی جاتی رہی کہ 31 دسمبر 1999 کی رات نئے سال کے آغاز کے موقع پر تمام کمپیوٹر فیل ہوجائیں گے اور دنیا بھر کا نظام ناکارہ ہوجائے گا۔

تاہم دنیا کے خاتمے کے تصور کو لوگوں میں جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ دراصل میری آج کی گفتگو کا اصل موضوع ہے ۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر کے انسان ذہناً اس بات کے لیے تیار ہیں کہ یہ دنیا جلد یا بدیر اپنے خاتمے کی طرف بڑ ھ رہی ہے ۔ اس بات کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے ، میں اس بات پر بعد میں گفتگو کروں گا۔ پہلے میں قدرے تفصیل سے یہ بیان کروں گا کہ لوگ اس طرح کیوں سوچ رہے ہیں ۔

قیامت: مذاہب کا بنیادی تصور
آج سے تقریباً چار ہزار برس قبل تمام دنیا میں شرک کا غلبہ ہو چکا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس مشن کے ساتھ مبعوث کیا کہ وہ مڈل ایسٹ کے تمام ممالک میں دعوت حق پہنچائیں گے ۔ ان کی اس دعوت کا جواب سو فیصد نفی میں دیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ مڈل ایسٹ کا علاقہ جو دنیا کا مرکز ہے ، اسے رہتی دنیا تک حضرت ابراہیم کی اولاد کو دے دیا جائے اور پھر یہ لوگ دنیا کے مرکز میں رہ کر دنیا بھر میں توحید کی منادی کرتے رہیں گے ۔ اسی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چار ہزار برس سے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور وابستگان کا انسانیت کے مرکزی دھارے میں اہم ترین کردار رہا ہے ۔ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کی شکل میں یہی لوگ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور نظریاتی حوالے سے پچھلے چار ہزار برسوں میں انسانیت کی امامت کرتے رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی طرح یہود و نصاریٰ بھی اپنی نسبت حضرت ابراہیم ہی کی طرف کرتے ہیں اور اپنی تمام فکری اور عملی گمراہیوں کے باوجود انہی کے عطا کردہ دین حنیف کی بنیادی تعلیمات کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔

اس تعلیم میں عقیدۂ آخرت کا وہ تصور بھی شامل ہے جس کے مطابق روز قیامت یہ دنیا ایک عظیم تباہی کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ اس لیے یہ تینوں مذاہب جو اصطلاحاً الہامی مذاہب کہلائے جاتے ہیں دنیا کے خاتمے اور اس کے بعد خیر کے غلبے کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں ۔ دنیا کے دیگر مذاہب بھی درحقیقت ایک زمانے میں الہامی مذاہب ہی تھے ، مگر چونکہ ان کے پیغمبروں کی تاریخی حیثیت پر وقت کی گرد پڑ گئی اس لیے انہیں غیر الہامی مذاہب کہا جاتا ہے ۔ لیکن ان کی تعلیمات کا علمی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ بھی دراصل توحید و آخرت کی بنیاد ہی پر کھڑ ے تھے ۔ اسی لیے ان میں بھی اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی، دنیا کے خاتمے ، خیر کے مکمل غلبے کے تصورات، چاہے بگڑ ی ہوئی شکل ہی میں سہی مگر پائے جاتے ہیں ۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کا خاتمہ دراصل ایک مذہبی تصور ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول عرصے سے انسانیت تک پہنچاتے چلے آ رہے ہیں اور یہی مذہبی تصور 21 دسمبر 2012 کی پیش گوئی کو عمومی توجہ دلانے کا سبب بنا ہے کیونکہ لوگ مذہبی تصورات اور تعلیم کی بنا پر ذہناً دنیا کے خاتمے کے لیے تیار ہیں ۔ میری اس بات کا سب سے بڑ ا ثبوت یہ ہے کہ ویب بوٹ کے جس سافٹ وئیر کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے وہ تمام تر اس بنیاد پر کام کرتا ہے کہ انسانیت مجموعی طور پر کیا سوچ رہی ہے اور اس کی سوچ پر کس چیز کا غلبہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انسانی شعور کی داخلی کیفیت کا اظہار ہے جس کا کسی خارجی پیش گوئی سے کوئی تعلق نہیں ۔

یہی زمانہ کیوں ؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اسی صدی میں دنیا کے خاتمے کے بارے میں اتنے زیادہ کیوں متفکر ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے اس بڑ ے پیمانے پر اس طرح کیوں نہیں سوچا گیا؟ میرے نزدیک اس کے ایک سے زیادہ اسباب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہمارا دور میڈیا کا دور ہے جس نے دھرتی کو گلوبل ویلج بنادیا ہے ۔ اس گلوبل ویلج میں خیالات بڑ ی تیزی سے پھیلتے ہیں ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مذہبی لٹریچر میں دنیا کے خاتمے اور پھر ایک نئی دنیا کے آغاز (eschatology) کے حوالے سے جو پیش گوئیاں ملتی ہیں ، ان میں سے کئی ایسی ہیں جو مکمل طور پر درست ثابت ہو چکی ہیں ۔ قرآن مجید میں قبل از قیامت کی جو واحد پیش گوئی کی گئی ہے اور جس کا ذکر دیگر الہامی صحیفوں میں بھی ہے یعنی یاجوج ماجوج کا دنیا پر غلبہ، وہ مکمل طور پر پوری ہو چکی ہے ۔ یاجوج ماجوج حضرت نوح کے تیسرے بیٹے یافث کی نسل کے لوگ ہیں ۔ یافث کے سات بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام ماجوج تھا۔ جبکہ یاجوج اسی کی نسل میں ایک بادشاہ کا نام تھا۔ بعد ازاں انہی دونوں کے نام پر یافث کی تمام اولاد مشہور ہوگئی اور اسی حیثیت میں انجیل میں قرب قیامت کی پیش گوئی کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الہامی صحیفوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابتدائً یہ لوگ شمال میں آباد تھے اور پھر وہیں سے رفتہ رفتہ دنیا کے تمام کونوں میں پھیل گئے ۔ قرآن مجید نے بھی قیامت سے قبل یاجوج ماجوج کے کھولے جانے اور دنیا پر ان کے غلبے کی پیشگوئی کی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’یہاں تک کہ وہ وقت آجائے ، جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑ یں ، اور قیامت کا شدنی وعدہ قریب آپہنچے تو ناگہاں دیکھیں کہ اِن منکروں کی نگاہیں ٹنگی رہ گئی ہیں ۔ اُس وقت کہیں گے : ہم اِس سے غفلت میں پڑ ے رہے ، بلکہ ہم نے تو اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا تھا۔‘‘ (الانبیاء 21: 97۔ 96)

جو لوگ تاریخ عالم پر نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حامی (افریقی) سامی (عربی اور عبرانی) نسل کے بعد اب دنیا کا اقتدار یافث کی اولاد کے ہاتھ میں آ چکا ہے ۔ اس نسل کی تمام اہم شاخیں یعنی ترک، یورپی، روسی، امریکی اور چینی اقوام دنیا کے اقتدار کے مزے لے چکی ہیں یا لے رہی ہیں ۔ قرآن کریم میں بیان کردہ یاجوج ماجوج کا خروج شروع ہو چکا ہے اور بتدریج اپنے عروج کی طرف بڑ ھ رہا ہے ۔

اسی طرح حدیث جبریل جو ذخیرۂ حدیث میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے اور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت جبریل لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے انسانی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اس میں بھی قرب قیامت کی جو پیش گوئی کی گئی ہے (’تم (عرب کے ) اِن ننگے پاؤں ، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چروا ہوں کو بڑ ی بڑ ی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھو گے ۔‘مسلم، رقم93)وہ مکمل طور پر پوری ہو چکی ہے ۔ عرب میں پٹرول نکلنے کے بعد یہ سب کچھ ہورہا ہے اور دنیا کی بلند ترین عمارتیں عرب ہی میں بن رہی ہیں ۔ بعض دوسری پیش گوئیاں بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں ، جن کا ظہور ابھی باقی ہے ، لیکن مذکورہ بالا پیش گوئیوں کی تکمیل کے بعد صاف لگتا ہے کہ قیامت کا معاملہ اب سر پر آ گیا ہے ۔

اہل مغرب اور یہود و نصاری کا معاملہ
یہ تو مسلمانوں کا پس منظر ہے جس میں کسی شخص کو قیامت کی بات زیادہ دور نہیں لگتی۔ یہود و نصاریٰ کے ہاں قرب قیامت کی جو پیش گوئیاں ہیں وہ حضرت مسیح کی آمد کے ار دگرد گھومتی ہیں ۔ بنی اسرائیل کے ہاں دو عظیم رسولوں کی آمد کی خوشخبری موجود تھی۔ ایک حضرت عیسی جو مسیح کے لقب سے سرفراز ہوئے اور دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت عیسیٰ جس وقت تشریف لائے اس زمانے میں بنی اسرائیل بدترین اخلاقی بحران کا شکار تھے ۔ ان کے اندر سے دینداری کی اصل روح ختم ہو چکی تھی اور سارا زور چند ظاہری اعمال پر تھا۔ بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واضح قانون جو تورات اور قرآن دونوں میں بیان ہوا ہے یہ تھا کہ وہ ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو پورا کریں گے تو ان کو زمین میں سیاسی اقتدار بھی دے دیا جائے گا۔ اس کے برعکس کرنے کی صورت میں ان پر سزا اور مغلوبیت نافذ ہو گی۔ حضرت عیسیٰ کی آمد کے وقت بنی اسرائیل مغلوبیت کی اسی سزا کا شکار تھے اور ایمان و اخلاق میں پستی کی بنا پر رومیوں کے غلبے اور غلامی میں مبتلا تھے ۔ تاہم وہ اس امید میں جی رہے تھے کہ آنے والا مسیح دراصل ایک فوجی اور سیاسی لیڈر ہو گا جو ان کو اس مغلوبیت سے نجات دے گا۔

ان کی امیدوں کے برعکس حضرت عیسیٰ آئے تو نھوں نے کسی قسم کی جنگی اور سیاسی جدوجہد کرنے کے بجائے یہود کی اخلاقی پستی پر سخت تنقید کی۔ یہ تنقید ان لوگوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔ وہ تو اس زعم میں تھے کہ آنے والامسیح آئے گا اور انھیں عروج و اقتدار دلادے گا۔ بلاشبہ یہی ہوتا اگر یہود مسیح کی بات مان لیتے ، مگر اس کاراستہ جنگ و جدل نہیں بلکہ ایمان کی تجدید اور اخلاقی اصلاح کی شکل میں تھا۔ یہود یہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے انہوں نے اپنے مسیح موعود کی تکذیب کر دی اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو ان کے شر سے بچاکر اپنے پاس اٹھالیا اور رسول کے کفر کی پاداش میں یہود پر وہ عذاب مسلط ہو گیا جس کی پیش گوئی حضرت عیسیٰ نے اپنے اٹھائے جانے سے چند ایام پہلے کی تھی، (متی1:24)۔ اس کی شکل یہ ہوئی کہ یہود کے لیے حضرت مسیح کی تکذیب کے بعد رومیوں کی غلامی سے نکلنے کا واحد راستہ ’تلوار‘ تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے وقت کی سول سپر پاور کے خلاف بغاوت کر دی۔ مگر یہی ان پر عذاب الٰہی کا کوڑ ا برسنے کا سبب بن گیا۔ خدا کی مدد کے بغیر وہ رومیوں کے لیے تر نوالہ تھے ۔ چنانچہ مسیح کے چند برس بعد مشہور رومی حکمران نیرو کے دور میں ہونے والی یہود کی اس بغاوت کو کچلنے ٹائٹس رومی آیا۔ حضرت عیسیٰ کی پیش گوئی کے عین مطابق یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ لاکھوں یہود مارے گئے اور باقی جلا وطن کر دیے گئے ۔ ہیکل سلیمانی تباہ و برباد کر دیا گیا سوائے اس ایک دیوار کے جس کے سامنے کھڑ ے ہوئے یہود آج تک روتے رہتے ہیں اور اسی بنا پر اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے ۔

یہود کو پھر بھی عقل نہ آئی اور انہوں نے مسیح کے بعد اپنے عروج کے دوسرے ممکنہ راستے یعنی رسالت محمدی پر ایمان لانے کے بجائے رسول عربی کا بھی انکار کر دیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنی امیدیں اس ’مسیح‘ کی آمد سے وابستہ کیے رکھیں جو پہلے ہی آ چکا تھا، مگر انھوں نے اس کا انکار کر دیا تھا۔ ٹائٹس رومی نے یہود کو یروشلم سے جلاوطن کر دیا تھا۔ اس جلاوطنی کے تقریباً دو ہزار سالہ دور میں ان کی مذہبی قیادت نے ان کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے لیے مسیح کی آمد کے تصور کو برقرار رکھا اور ان کو یہ یقین دلایا کہ وہ یہود کو دوبارہ یروشلم میں آباد کرے گا۔

تاہم یہود کا غیر مذہبی طبقہ جو ان پیش گوئیوں میں نہیں جی رہا تھا اس نے سیاسی، سماجی، معاشی اور علمی میدانوں میں مسلسل جدوجہد کی اور آخر کار مسلمانوں کی کمزوریوں اور حماقتوں کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس واقعہ سے یہود کے مذہبی لوگوں کو ایک نئی زندگی مل گئی اور اب یہود کی فکری قیادت سیکولر یہود کے بجائے ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں میں منتقل ہورہی ہے جو اپنے آنے والے مسیح کا انتظار کر رہے ہیں ، جس کی آمد کے ساتھ وہ ایک زبردست جنگ (Armageddon) کے بعد غیر عبرانیوں کو فلسطین سے نکال کر اس پورے علاقے میں اپنی مملکت قائم کرنے اور ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کے خواہشمند ہیں ۔ یہ سارے واقعات ان کے نزدیک قرب قیامت کی علامت ہیں جس کا آغاز یہود کی فلسطین واپسی سے ہو گیا ہے ۔

مسیحی حضرات کی غلط فہمی
مسیحیوں کو ایک دوسرے پہلو سے زبردست غلط فہمی لگی ہے ۔ یہود نے اپنے مسیح کو نہیں مانا اور ابھی تک اس کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انجیل میں ایک دوسری پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس پیش گوئی کے کئی اجزا تھے ۔ یعنی رومیوں کی یروشلم پر چڑ ھائی اور ان کے ہاتھوں اس مقدس شہر کی تباہی، رومی بت پرستوں کے مسیح کے نام لیواؤں پر ظلم و ستم، خود عیسائیوں کے اندر گمراہیوں کا پھیل جانا اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ عالمی سطح پر توحید کی دعوت اور اتمام حجت، (متی 1-14:24)۔ مگر بدقسمتی سے مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ کی اس پیش گوئی کو کچھ تو سمجھنے میں غلطی کی اور کچھ تحریف کر کے رسول اللہ کی آمد کو مسیح کی آمدِ ثانی سے بدل دیا۔ چنانچہ جس طرح یہود نے اپنے حقیقی نجات دہندہ مسیح کو نہیں مانا اور ابھی تک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں ، ٹھیک اسی طرح عیسائیوں نے رسول اللہ کو نہیں مانا اور نبی عربی کے بارے میں انجیل کی تمام پیش گوئیوں کو مسیح سے منسو ب کر دیا۔ اس لیے وہ بھی آج تک مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں ۔

مسیحی حضرات نے کس طرح دھوکا کھایا اس کی ایک نمایاں مثال حضرت عیسیٰ کا و ہ خواب ہے جو انجیل میں مکاشفے کے نام سے موجود ہے ۔ اس خواب میں آخری زمانے کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں وہ سب پوری ہو چکی ہیں ۔ مکاشفے کے باب 19 کی آیت 11 سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیش گوئی شروع ہوتی ہے ۔ پھر تمثیلی اسلوب میں صحابۂ کرام کے مڈل ایسٹ پر غلبے اور مسیحیت میں پیدا ہونے والے شرک کی گمراہی کے واضح ہوجانے کا بیان ہے ۔ ساتھ ہی یہ وضاحت ہے کہ اس کے بعد شیطان کو ہزار برس کے لیے قید کر دیاجائے گا۔ یہ دراصل توحید پر مبنی مسلمانوں کے عالمی اقتدر کی ایک تعبیر ہے ۔ رسول اللہ اور صحابہ کے ہاتھوں برپا ہونے والے سزا و جزا کے ان واقعات کو مکاشفے میں پہلی قیامت کہا گیا ہے ۔

پھر یہ پیش گوئی ہے کہ ہزار سال بعد شیطان کوکھول دیا جائے گا اور وہ یاجوج ماجوج کو گمراہ کرے گا جو زمین میں جنگ و فساد برپا کر دیں گے ، (مکاشفہ 7-8:20)۔ یہ دراصل یورپ میں آنے والے اس فکری انقلاب کی تعبیر ہے جسے احیائے علوم (Renaissance) کہا جاتا ہے اور جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں ۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھیک ہزار برس بعد یعنی سولہویں صدی میں پیش آیا۔ اس فکری انقلاب کے نتیجے میں ایک طرف صنعتی انقلاب آیا اور دوسری طرف خدا اور آخرت کا انکار کر دیا گیا۔ انہی چیزوں کو لے کر یورپی اقوام اپنے وطن سے نکلیں اور دنیا بھر میں جنگ و فساد برپا کر دیا جس کا نقطۂ عروج دو عظیم جنگوں کی شکل میں سامنے آیا۔

یہ وہ واقعات ہیں جنھیں مکاشفے میں ہزار سال بعد شیطان کے آزاد ہوجانے ، یاجوج ماجوج کو گمراہ کر کے لڑ ائی کی آگ پھیلانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کے اس خواب کا ایک ایک جز اپنی پوری تعبیر پا چکا ہے ۔ تاہم جب عیسائیوں نے حضور ہی کو نہیں مانا اور اس پیش گوئی میں رسول اللہ کے نام کو ہٹا کر اس کی جگہ مسیح کی آمد ثانی کو مراد لے لیا تو ان کے لحاظ سے یہ سارے واقعات ابھی پیش ہی نہیں آئے اور وہ ابھی تک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں ۔ البتہ ہزار سال کے ذکر سے ان کا ذہن اس طرف چلا جاتا ہے کہ عیسوی کیلنڈر میں ہزار سال ہونے پر مسیح کی آمد ثانی ہو گی اور پھر ہزار برس تک مسیح کا دور باقی رہے گا جسے وہ لوگ آسمانی بادشاہی کہتے ہیں ۔ چنانچہ پہلے ہزار سال پورے ہونے پر عیسائیوں نے صلیبی جنگیں برپا کر دی تھیں تاکہ یروشلم پر قبضہ کر کے وہاں مسیح کا استقبال کریں ۔ جب کہ دوسرے ہزار سال پورے ہونے پر ایک دفعہ پھر وہ مسیح کی آمد، اس کے بعد یاجوج ماجوج کے ساتھ ہونے والی عظیم جنگ (Armageddon) کے منتظر ہیں ۔ یہود کے لیے ان کی مملکت کا قیام اگر آخری زمانے کی نشانی تھی تو نصاریٰ کے لیے دوسرے ہزار برس (Millennium) کا آغاز آخری زمانے کی ایک علامت ہے ۔
رسول اللہ کا عالمی منصب: انذار قیامت
یہ وہ پس منظر ہے جس میں تمام اقوام موجودہ دور کو آخری زمانہ سمجھتی ہیں ۔ میرے نزدیک اس ضمن کی اہم ترین بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب انسانیت کے لحاظ سے یہ تھا کہ آپ دنیا بھر کے لیے نذیر و بشیر ہیں ، (فرقان 1:25، سبا 28:34)۔ یعنی آپ دنیا کو قیامت کے بارے میں متنبہ کرنے آئے ہیں ۔ خوش قسمتی سے آج جب دنیا بھر میں زمانے کے اختتام کی باتیں ہورہی ہیں ، اقوام عالم قیامت کی بات کو سننے کے لیے ہمیشہ سے زیادہ تیار ہیں ۔ آج مسلمانوں کے لیے کرنے کا سب سے بڑ ا کام یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے بعد آپ کے اس مشن کو پورا کرنا اپنا مقصد بنالیں ۔ یعنی قیامت اور آخرت کے بارے میں لوگوں کو متوجہ کریں ، جب تمام انسان ایک اللہ کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب دیں گے ۔ اس روز نیک بندے جنت کی ابدی نعمتوں میں رہیں گے اور خدا کے نافرمان و سرکش جہنم کے گھڑ ے میں جاگریں گے ۔ یہی اس وقت مسلمانوں کے کرنے کا سب سے بڑ ا کام ہے ۔

مسلمانوں کے لیے عظیم موقع ہے ۔ ان کے پاس دین کامل موجود ہے ۔ وہ آخری کتاب، آخری شریعت اور دین حق کے امین ہیں ۔ رسالت محمدی کے پیغام کو اب کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ آپ نے سرزمین عرب میں اللہ کے حکم سے جو سزا و جزا برپا کی تھی وہ آپ کی سچائی اور قیامت کا سب سے بڑ ا ثبوت ہے ۔ مسلمانوں کو اس انفارمیشن ایج کا فائدہ اٹھا کر نبوت و رسالت کی اس بے مثال داستان محمدی کو دنیا بھر تک پہنچادینا ہے ۔ یہی ان کے لیے کرنے کا اصل کام ہے ۔ اسی میں ان کے ہر عروج اور کامیابی کا راستہ پوشیدہ ہے ۔

مصنف: ریحان احمد یوسفی

5 responses to this post.

  1. Thanks sir for giving such detailed answer concerning the day of judgement. May Allah bless you.

    جواب دیں

  2. پروفیسر صاحب، بہت اچھا مضمون تحریر کیا ہے۔.

    جواب دیں

  3. اچھی کوشش ہے مگر اس تحریر میں کئی خامیاں ہیں۔
    سب سے پہلے تو اس بات پر ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ قیامت ایسی چیز ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کا علم کسی دوسری ہستی کو نہیں دیا۔ انسانوں میں سے اور نا ہی فرشتوں میں سے افضل ترین ہستیوں کو بھی اس کا علم نا تھا۔ میری مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اور اسکی گواہی ہمیں قرآن و حدیث مین جابجا نظر آتی ہے۔البتہ قرب قیامت کی سشانیوں کے بارے میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں گفتگو کی جاسکتی ہے۔ احادیث کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بھی ایسا ذریعہ نہیں جس کی مدد سے ہم یقین کے ساتھ کچھ کہ سکیں۔
    احادیث کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جو سب سے قریبی نشانی جس کا ظہور ہونا ہے وہ حضرت مہدی کی آمد ہے۔ جس کے بعد رومیوں (یورپی اقوام) سے جنگ جس میں ملحمہ وقوع پذیر ہونا ہے۔ جس کے بعد دجال کا خروج پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول پھر کہیں جا کر سد سکندری میں شگاف اور یاجوج ماجوج کی آزادی ہوگی کہ جو اس وقت کے لوگوں کا طرزرہائش اور معاش فاسد کردیں گے اور لوگوں کو پہاڑوں اور مضبوط پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور کردیں گے۔ اسکے علاوہ جو نشانیاں بتائی گئی ہیں جیسے کہ سورج کا مغرب سے طلوع اور دابۃالارض کا نکلنا جیسے واقعات ہیں وہ قیامت کے بالکل قریب وقوع پزیر ہوں گے۔
    میں نہیں سمجھتا کہ 2012 میں کسی بھی طرح یاجوج ماجوج کا خروج ہو سکتا ہے۔
    شیطان کی ۱۰۰۰ سالہ بندش سے متعلق بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ تعالی نے شیطان کو قیامت تک کی جزوی آزادی دی رکھی ہے۔ اور نا ہی یاجوج ماجوج شیطان کے ورغلانے سے نکلنے والے ہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی نکل پائیں گے ۔ اس طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جسکے مطابق اللہ سبحانہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر پہاڑ پر چڑھ جائیں کیونکہ اب میں اپنی اس مخلوق کو آزادی دے رہا ہوں جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہین کرسکتی۔
    لیکن ایک بات جو احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان نشانیوں کا بغور اور تفصیلی مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ اور جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ قیامت کے قریب شاید دنیا کی آبادی بہت کم ہو۔ یہ کسی جنگ عظیم، وباء ، کسی بہت بڑے تجربہ کی ناکامی یا کسی نا معلوم فلکیاتی حادثہ کے نتیجے مین ظہور پذیر ہو سکتی ہے ۔ جیسا کہ اس مضمون میں لکھا ہے کہ دسمبر ۲۰۱۲ میں قیامت کا وقوع پذیر ہونا محض سنسنی خیزی کے کچھ نہیں۔ مگر ایسا ممکن ہے کہ ۲۰۱۲ میں کچھ ایسا ہوجائے کہ جس سے انسانی تاریخ ، تہذیب ،علوم و فنون دوبارہ سے اپنی ابتدائی شکل میں آجائیں۔ مگر یہ محض ایک قیاس آرائی ہے۔ ہمیں قیامت کے وقوع پذیر ہونے سے زیادہ قیامت کی وہ نشانیاں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں ان پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ دنیا کے حالات اب اسی سمت جا رہے ہیں جن کی طرف ان احادیث مین اشارہ کیا گیا ہے۔
    اگر آپ قیامت کی نشانیوں کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ابن کثیر کی بدایہ و النہایہ کی آخری جلد سے بہتر کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گذری ۔۔۔ضرور مطالعہ کیجیے گا ۔

    جواب دیں

Leave a reply to ڈاکٹر جواد احمد خان جواب منسوخ کریں