نسیم حجازی اور رومانوی فکر


نسیم حجازی (1914-1996) اردو زبان میں تاریخی ناول نگاری کا سب سے بڑ ا نام ہیں ۔ انھوں نے مسلمانوں کی تاریخ کے عروج و زوال کو موضوع بنا کر متعدد ناول لکھے ۔ ان کی تحریر کا ہر قاری یہ بات جانتا ہے کہ انہوں نے ناول نگاری برائے ادب نہیں بلکہ برائے مقصد کی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے ناولوں میں ناول نگاری کے تمام بنیادی اجزا پوری طرح موجود ہوتے تھے ، لیکن اس کے ساتھ ان کے ناول مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے حصول کی خواہش اور قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں ان کے فلسفے کا مؤثر اظہار بھی ہوتے تھے ۔ ان کے ناول قارئین میں بے حد مقبول ہوئے اور بلاخوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک سے زیادہ نسلیں ان ناولوں کو پڑ ھ کر متاثر ہوئیں ۔ مزید یہ کہ ان کے ناول ’خاک و خون‘ پر ایک فلم اور ان کے دو ناولوں ’شاہین‘ اور ’آخری چٹان‘ پر پی ٹی وی نے ڈرامے بھی بنائے ۔ جنہوں نے مطالعے کا ذوق نہ رکھنے والے اور بغیر پڑ ھے لکھے لوگوں تک بھی ان کا پیغام مؤثر انداز میں پہنچادیا۔

ان کے تمام ناول اپنے اندر وہ خاص رومانویت رکھتے تھے جو انیسویں صدی میں دنیا پر اپنا سیاسی اقتدار کھونے کے بعد مسلمانوں میں اپنے ماضی کے ساتھ پیدا ہوگئی تھی۔ بیسویں صدی میں جیسے جیسے مسلمانوں میں اپنی شکست کا احساس بڑ ھتا گیا، ماضی کے ساتھ ان کی یہ رومانویت بھی بڑ ھتی چلی گئی۔ دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ و اقتدار، عظمتِ رفتہ کا حصول، خلافتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ، اتحاد بین المسلمین، جذبۂ جہاد کی بیداری، کافروں کی سرکوبی، قدیم مسلم ثقافت کا احیا اور فقہی قوانین کا فرد و اجتماع پر نفاذ اس رومانویت کے بنیادی عناصر تھے ۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کے علما، دانش ور، صحافی اور فکری رہنمائی کرنے والے بیشتر عناصر اسی رومانویت کے اسیر اور اسی کے مبلغ تھے ۔ نسیم حجازی اسی قافلے کے ایک شہسوار تھے جنھوں نے میدانِ ادب میں اس فکر کے جھنڈے گاڑ دیے اور انتہائی مؤثر انداز میں کم از کم دو نسلوں میں اس رومانوی فکر کی آبیاری کی۔

رومانوی فکر کی کمزوریاں
ماضی کے ساتھ رومانوی وابستگی کوئی بری بات نہیں ہوتی، مگر ماضی کے احیا کی خواہش کے ساتھ یہ ضروری ہوتا ہے کہ ماضی کے عروج و زوال کی درست توجیہہ کی جائے اور حال میں پیدا ہوجانے والی تبدیلیوں کو بھی نظر میں رکھا جائے ۔ بدقسمتی سے ہماری رومانوی فکر نے ماضی کے عروج و زوال کا انتہائی سطحی تجزیہ کیا، اس لیے بہترین لوگوں کی بیش قیمت قربانیوں کے باوجود پہلے برطانیہ اور یورپی اقوام، پھر سو ویت یونین اور اب امریکہ دنیا کے اقتدار پر فائز ہیں جبکہ مسلمانوں کے زوال کا عمل مسلسل جاری ہے ۔

ہماری رومانوی فکر میں کیا کمزوریاں ہیں اسے ہم چند مثالوں سے واضح کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہماری رومانوی فکر میں اغیار کی سازش اور اپنوں کی غداری تاریخ کی ہر شکست کا بنیادی سبب ہوتی ہے ۔ یہ ایک انتہائی سطحی سوچ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عام حالات میں غدار کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈوبتی ہوئی کشتی سے نکل بھاگنا چاہتا ہے ۔ وہ یہ بھانپ لیتا ہے کہ قوم کی شکست اس کی کمزوریوں کی بنا پر یقینی ہے ۔ اس لیے وہ قوم میں رہتے ہوئے اتنا بڑ ا خطرہ مول لیتا ہے کہ غیر کا ساتھ دیتا ہے جس کی فتح اس کی مدد کے بغیر بھی یقینی ہوتی ہے ۔ وہ فاتح کا ساتھ دے کر اپنی جان بچانا چاہتا ہے ، وگرنہ اپنی قوم سے غداری کرنے والے کو اگر یہ اندازہ ہو کہ اس کی قوم ہی نے فتح حاصل کرنی ہے تو وہ کبھی غیر کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرے میں نہ ڈالے ۔ کسی انسان کو غداری پر آمادہ کر دینے والی کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ انسان کو اپنی قوم کے ہاتھوں کوئی تکلیف پہنچی ہو، مگر یہ اور ان جیسی دیگر وجوہات غداری کی نفسیات میں اس وقت ڈھلتی ہیں جب قوم کی اپنی کمزوری کی بنا پر اس کی شکست کا امکان نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اس لیے شکست کا اصل ذمہ دار قوم کی کمزوری کو قرار دینا چاہیے نہ کہ غداروں کو تاریخ کے صفحات میں سولی پر چڑ ھا کر لوگوں کو اپنی کمزوریوں سے بے نیاز کر دیا جائے ۔ مزید یہ کہ پھر آپ کو اپنی فتوحات کا کریڈٹ بھی نہیں لینا چاہیے کیونکہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ دوسری قوموں کے افراد نے مسلم فاتحین کی مدد کی ہے جس کی بنا پر ان کا کام آسان ہو گیا۔

غداری کے فلسفے سے پیدا ہونے والا مسئلہ
بدقسمتی سے ہمارے اندر اپنی کمزوریوں کی اصلاح کے بجائے غداری اور بیرونی سازش کا فلسفہ اس طرح مقبول ہو چکا ہے کہ اب یہی ہماری تمامتر توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔ ہم ہمیشہ اپنی کمزوریوں سے آنکھیں بند کیے رہتے ہیں اور ہر شکست اور خرابی میں بیرونی ہاتھ ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اپنے صالح اور نیک لوگوں کو بھی جو ہم سے اختلافِ رائے رکھیں غدار، بیرونی ایجنٹ اور پلانٹڈ شخص قرار دے دینا اپنا معمول بنا چکے ہیں ۔ بڑ ے بڑ ے صاحبانِ علم اور مصلحین اس قومی مرض کے تحت ایجنٹ قرار دے دیے جاتے ہیں ۔ یہ ایک تباہ کن رویہ ہے جو بدترین اخلاقی کمزرویاں لیے ہوئے ہے ۔ اور دینی تعلیم کے اعتبار سے بھی یہ رویہ قابل مذمت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے کو کافر قرار دیتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک ضرور کافر ہوتا ہے ۔ اس طرح یا تو پہلا شخص ہی کافر ہوتا ہے ، یا پھر دوسرا شخص اس پر غلط الزام لگا کر خود کافر ہوجاتا ہے ۔ کسی مسلمان کو غیر مسلم طاقت کا ایجنٹ قرار دینا اسے کافر قرار دینے سے کم نہیں ہے ۔ اور یہ الزام اگر غلط ہو تو بدگمانی کے جرم کے علاوہ خود انسان کو رب کی نظر میں کافر بنانے کے لیے بہت ہے ، مگر دیکھ لیجیے کہ ہمارے ہاں یہ رویہ کتنا عام ہے ۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ غیروں کی سازش اور اپنو ں کی غداری انسانوں کی اجتماعی زندگی میں بپا ہونے والی کشمکش کے لازمی عناصر میں سے ہے ۔ یہ قدرت کے قانون کا حصہ ہے کہ قوموں کے درمیان کشاکش برپا ہو گی تو قوم کے کمزور افراد غداری کریں گے اور دوسری قوموں کے خلاف دیگر حربوں کے علاوہ ساز باز کر کے اسے کمزور کرنے کا حربہ بھی اختیار کیا جائے گا۔ مگر یہ مؤثر صرف اپنی کمزوری کی بنا پر ہوتا ہے ۔ کوئی طاقتور کسی سازش سے متأثر ہوتا ہے اور نہ اسے کوئی غدار شکست دلوا سکتا ہے ۔یہی وہ بات ہے جس کی طرف قرآنِ مجید نے اس طرح توجہ دلائی ہے کہ اگر تم صبر سے کام لو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کی سازشیں تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہیں ، (آل عمران120:3)۔ یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو اصل نقصان سازشوں سے نہیں بلکہ بے صبری اور خدا کی نافرمانی کی روش سے پہنچتا ہے ۔

صبر کو چھوڑ کر ٹکراؤ کی ذہنیت
یہی وہ دوسرا نکتہ ہے جسے ہماری رومانوی سوچ نظر انداز کرتی ہے ۔ ہماری رومانوی سوچ میں صبر کا کوئی مقام نہیں ۔ اسے نہیں معلوم کہ جب قومیں زوال آشنا ہوجاتی ہیں تو کرنے کا کام یہ نہیں ہوتا کہ اسبابِ زوال دور کیے بغیر انھیں طاقتور اقوام سے بھڑ ادیا جائے ۔ ایسے وقت میں اصل کام یہ ہوتا ہے کہ جتنا نقصان ہو چکا ہے اسے برداشت کیا جائے اور مزید تصادم سے گریز کرتے ہوئے وقفۂ امن حاصل کر کے ساری توجہ قوم کی علمی اور اخلاقی تعمیر پر لگادی جائے ۔ اس لیے کہ علم و اخلاق ہی قوموں کی طاقت کا راز اور ان کے عروج کی سیڑ ھیاں ہوتے ہیں ۔ تصادم سے گریز، وقفۂ امن، تزکے ۂ اخلاق اور علمی ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب افرادِ قوم میں صبر و برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ تبھی یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگ انتہائی اشتعال انگیز ماحول میں بھی جذبات پر قابو رکھتے ہیں اور کسی ایسی جنگ میں نہیں کودتے جس میں شکست یقینی ہو۔ مگر آفرین ہے ہماری رومانوی سوچ پر جس نے قومی تعمیرکے بجائے دو صدیوں تک ہمیں مسلسل طاقتور اقوام سے بھڑ ائے رکھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری تباہی کے دن ختم ہوکر نہیں دے رہے ۔

اتحاد کی نفسیات پیدا کیے بغیر اتحاد کا درس
ہماری رومانوی سوچ کا ایک اور سطحی تجزیہ اتحاد کے بارے میں ہے ۔ وہ اتحاد بین المسلین کا وعظ تو بہت کرتی ہے ، مگراتحاد کے بارے میں بعض بنیادی حقائق بھی نہیں جانتی۔ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اگر متحد ہوجائیں تو ہم ماضی کی ساری سطوت و طاقت حاصل کر لیں گے ۔ اتحاد دو طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک بین الاقوامی سیاسی اتحاد اور دوسرا قومی سطح پر پیدا ہونے والی ہم آہنگی۔ جہاں تک پہلے کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں صرف پہلی صدی تک ہی ایک سیاسی نظم کے تحت متحد رہے ہیں ۔ یہ پہلی صدی بھی بدترین خانہ جنگی، بغاوتوں اور سیاسی انتشار کے وقفوں سے عبارت رہی ہے ۔ 750 عیسوی میں بنوعباس کی حکومت قائم ہونے کے بعد مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت اس وقت ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی جب اموی شہزادہ عبدالرحمن عباسیوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر اسپین پہنچا اور وہاں اُس نے ایک عظیم اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد کبھی تمام مسلمان ایک سیاسی نظم کے تحت نہیں رہے ۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اگلے ہزار برس تک بھی مجموعی طور پر دنیا میں غالب رہے ۔ مزید یہ کہ سلطان صلاح الدین اور نور الدین زنگی وغیرہ نے دو صدیوں تک عالم اسلام کی کسی مدد کے بغیر یورپ کی متحدہ افواج کا بھرپور مقابلہ کیا اور آخر کار انھیں شام و فلسطین سے نکال باہر کیا۔ یہ وہ دور تھا جب عملاً سارا عالمِ اسلام سیاسی انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار تھا۔

قوموں کی زندگی میں اصل چیز اخلاقی برتری، وقت کی ٹیکنالوجی پر عبور اور قومی شعور کی بیداری ہوتی ہے ۔ ہمیں سیاسی اتحاد کی اہمیت سے انکار نہیں ، لیکن اس کا انحصار اتحاد کی اس دوسری قسم پر ہوتا ہے جسے ہم نے قومی سطح پر پائی جانے والی ہم آہنگی کہا ہے ۔ یہ ہم آہنگی اس شعور کا ایک ثانوی نتیجہ ہوتی ہے جو انسانوں میں صبر کی نفسیات اور مفادات اور تعصبات سے بلند اخلاقی سوچ اور ذہن سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس ہم آہنگی کے لیے زبانی کلامی اتحاد کی تلقین کرنا اور اس کی خواہش کا اظہار کرنا اکثر حالات میں ایک بے معنی وعظ ہوتا ہے ۔ اصل چیز لوگوں کو ان کے تعصبات اور مفادات سے بلند کر کے ان میں صبر کی نفسیات پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اتحاد کی راہ میں بنیادی رکاوٹ یہی دو چیزیں ہوتی ہیں ۔ انسان اپنے تعصبات سے اوپر نہیں اٹھتے ۔ وہ اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے عادی نہیں ہوتے ۔ وہ اپنے مفادات کو قربان کرنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ یہی چیزیں قومی اور ملی اتحاد کو پارہ پارہ کرتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں آج ہر رہنما اتحاد کی بات کرتا ہے ، مگر اس کی اپنی صفوں میں کہیں اتحاد نظر نہیں آتا۔ مگر جب لوگوں کی تربیت کر کے انھیں تعصبات اور مفادات سے بلند کر دیا جائے اور ان میں صبر کی نفسیات کو پیدا کر دیا جائے تو یہ ہم آہنگی اور اتحاد خود بخود پیدا ہوجاتا ہے ۔

قرآنِ مجید کے جہاد کی نوعیت کو غلط متعین کرنا
ہماری رومانوی سوچ کی ایک اور غلطی قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے جہاد کو سمجھنے میں پے در پے غلطی کرنا ہے ۔ مثلاً قرآنِ مجید نے جہاد کی اجازت صرف اُس وقت دی جب مدینے میں مسلمانوں کی ایک اسٹیٹ قائم ہو چکی تھی، (الحج 39:22)۔ قرآنِ مجید میں ’’اذن‘‘ یعنی اجازت دیے جانے کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیٹ قائم ہونے سے قبل جہاد کی ممانعت تھی۔ اور یہی کچھ ہم مکی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر ان کے ایمان کی وجہ سے بدترین ظلم ہوتا رہا، لیکن جہاد کی اجازت نہیں دی گئی۔ مسلمان پٹتے رہے ، لٹتے رہے ، مرتے رہے ، ہجرت کرتے رہے ، مگر جب تک وہ ایک اسٹیٹ کے تحت منظم نہیں ہوئے ، قرآن جہاد و قتال کے حکم سے بالکل خالی رہا۔ اس سے بالکل واضح ہے کہ اسلامی شریعت میں اسٹیٹ کے بغیر فرد کے جہاد کا کوئی تصور نہیں ، مگر بدقسمتی سے ہماری رومانوی فکر میں افراد کے انفرادی اور گروہی جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ جس کا نتیجہ آج ہم علما کے قتل اور خود کش حملوں میں معصوم جانوں کے اتلاف کی شکل میں بھگت رہے ہیں ۔

مزید یہ کہ قرآن میں جہاد کی اجازت جب دی بھی گئی تو فریقین میں ایک تناسب کے ساتھ دی گئی جو سورۂ انفال 8 آیت 66 میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ایک اور دو کا تناسب ہونا ضروری ہے ۔ تبھی جہاد فرض ہوتا ہے اور تبھی نصرتِ الٰہی آتی ہے ۔ پھر خیال رہے کہ یہ تناسب اُس وقت کا تھا جب دونوں فریقوں کے پاس ایک جیسے ہتھیار تھے ۔ مگر جب ہتھیاروں میں زمین آسمان کا فرق ہو تو پھر بہتر راستہ امن کا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں ہونے والے جہاد میں قرآنِ مجید کے اس حکم کا لحاظ رکھے بغیر ہر سپر پاور سے ٹکرانے کو بہادری سمجھا جاتا ہے ۔ اور انتظار کیا جاتا ہے کہ آسمان سے ابابیلیں آ کر دشمنوں کو ختم کریں گی۔

جہاد کا حکم سمجھنے میں ایک اور غلطی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کی نوعیت کو درست طور پر نہ سمجھنا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد تو وہ کیا جس کا حکم ہمیشہ باقی رہے گا۔ وہ ہے ظلم کے خلاف جہاد۔ جبکہ جہاد کا دوسرا حکم ان لوگوں کے خلاف تھا جنھوں نے آپ کی رسالت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ رسولوں کے باب میں اللہ کا یہ قانون ہے کہ ان کے منکرین کو اتمامِ حجت کے بعد عذاب دے کر ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔ پہلے یہ عذاب طوفان، زلزلہ اور آندھی جیسی شکلوں میں دیا جاتا تھا مگر جب رسول اللہ کو اہل ایمان کی ایک بڑ ی تعداد کا ساتھ مل گیا تو پھر صحابہ کی تلواروں سے کفار کو عذاب دیا گیا (توبہ14:9)۔ قرآنِ کریم میں بیان ہونے والے اس نوعیت کے جہاد کا کوئی تعلق آج کے لوگوں سے نہیں ۔ ہمیں صرف ظلم کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے ۔ وہ بھی اُس وقت جب جہاد اسٹیٹ کے تحت کیا جائے ، تناسب ایک اور دو کا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم اخلاقی ہدایت وہ ہے جسے پچھلی دو تین دہائیوں سے ہم نے بالکل نظر انداز کر رکھا ہے کہ چاہے مسلمانوں پر ظلم ہو، اگر ظالم حکومت کے ساتھ ہمارا معاہدۂ امن ہے تو اس معاہدے کو ختم کیے بغیر ہم کوئی جنگ نہیں لڑ سکتے نہ ان کے خلاف کسی کی مدد کرسکتے ہیں ، (انفال72:8)۔ مگر ہمارا کارنامہ دیکھیے کہ ہم نے سو ویت یونین اور بھارت کے خلاف اعلانِ جنگ کیے بغیر دو پروکسی وار لڑ یں اور کھلم کھلا قرآن کے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔ جس کے نتائج اب ہم بھگت رہے ہیں ۔

غیر مسلموں سے تعلق کی درست نوعیت
ہماری رومانوی فکر کا اگلا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تمام غیر مسلم کافر قرار پاتے ہیں اور کافروں سے معاملہ کرنے کا راستہ ان کے نزدیک صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک خط لکھ کر ان پر حجت تمام کی جائے اور پھر ان سے جنگ چھیڑ دی جائے ۔ یہ جنگ بھی اپنی علمی و اخلاقی پستی اور جہاد کے بارے میں قرآن میں بیان کردہ مذکورہ بالا تمام احکام کو نظر انداز کر کے لڑ ی جائے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تعلق کی اصل نوعیت داعی اور مدعو کی ہے نہ کہ دشمن اور عدو کی۔ مگر بدقسمتی سے ہم آج تک زمانۂ قدیم کی اُس فقہی تقسیم میں جی رہے ہیں جس میں دنیا یا تو دارالکفر ہے یا پھر دار الاسلام۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کافر صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن تک حق پوری طرح پہنچ جائے اور پھر وہ جان بوجھ کر رسول کی دعوت کا انکار کر دیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ رسول کے دور ہی میں ممکن تھا۔ اب تو ہمیں غیرمسلموں تک دین کی دعوت پہنچانی ہے اور صبر کے ساتھ خدا کے فیصلے کا انتظار کرنا ہے ۔ مگر ہماری رومانوی سوچ میں صبر کی طرح دعوت کا بھی کوئی مقام نہیں ہے ۔

یہ وہ کچھ کمزوریاں ہیں جو ہماری رومانوی فکر کی جڑ وں میں موجود ہیں ۔ بدقسمتی سے اس وقت بیشتر عالمِ اسلام اس رومانوی فکر سے وابستہ ہے اور اس کے بدترین نتائج بھگت رہا ہے ۔ یہ رومانوی سوچ ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ تھی۔ الحمد للہ اب اس سوچ کا دور ختم ہو چکا ہے ۔ اب دعوت کی فکر کا دور شروع ہو چکا ہے ۔ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ صبر اور دعوت کی یہ فکر ہر طرف پھیل جائے گی اور انشاء اللہ ہمارا آنے والا کل ہمارے آج سے کہیں بہتر ہو گا۔
مصنف: ریحان احمد یوسفی

3 responses to this post.

  1. Posted by Khurram on 08/04/2015 at 3:26 شام

    Kafir aur Gher Muslim ki yhe tafreeq kis daleel se sabit he? plz explain…

    جواب دیں

  2. بہت خوب۔۔۔۔ ایسی سوچ رکھنے والے شاید ہمیشہ سے آتے میں نمک کے برابر رہے ہیں۔۔۔۔ بہت اچھی تحریر ہے مگر صرف سمجھنے والوں کیلئے۔۔۔۔

    جواب دیں

  3. By reading the Quran one follows the straight path n also one is lead astray but only those are lead astray who do not follow it and have doubt in the Quran . Majority only read for exploiting people for their own benefits n forgetting that they will be answerable to the Almighty on the Day of Judgement. May Allah bless you.

    جواب دیں

Leave a reply to amnasurdu جواب منسوخ کریں