گرمی بہت شدیدہے


وہ پسینے میں شرابور تیز تیز قدموں سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ دھوپ کی شدت اس کی جلد جھلسائے دے رہی تھی ۔ نمی کا یہ عالم تھا کہ اس کے جوتے تک تر ہوچکے تھے۔ مسجد کچھ ہی دور تھی لیکن یہ چند ساعتوں کا فاصلہ صدیوں پر محیط لگ رہا تھا۔ وہ چلتا جارہا تھا اور گرمی کو برا بھلا کہہ رہا تھا ۔اس دوران اس نے بے شمار مغلظات سورج کی شان میں بکیں۔ ان سب اقدامات کے باوجود حالات جوں کے توں تھے۔آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا تھا نہ زمین پر کوئی سائے کی پناہ۔ اس کے ذہن میں وسوسے آنے لگے کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوگا تو لوڈ شیڈنگ کی بنا پر بجلی نہیں ہوگی۔ گرمی اور حبس کا عالم میں مولانا صاحب نہ جانے کتنا لمبا خطبہ دیں اور کتنی طویل نماز پڑھائیں ۔ وہ گذشتہ کئی ہفتوں سے جمعہ کی نماز ترک کررہا تھا اور آج ہمت کرکے گھر سے نکلا تھا۔اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ جمعہ کی نماز ترک کردے اور مسجد نہ جائے ۔ جب پہلے کچھ نہیں ہوا تو اب بھی کچھ نہ ہوگا۔ بالآخر اس نے واپسی کا ارادہ کرلیا اور گھر آگیا۔گھر پہنچ کر اس خود کو آرام دہ بستر پر ڈالا اور ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔

اگلےدن جب سو کر اٹھا تو دفتر جانا تھا۔ گرمی کی شدت میں کل نسبت اضافہ زیادہ تھا ۔ اس کا دفتر گھر سے دس کلومیٹر دور تھا اور یہ راستہ اسے بس میں طے کرنا تھا۔ چاروناچار وہ تیار ہوا اور بس اسٹاپ تک پہنچا۔ وہاں لوگوں کا جم غفیر تھا اور قریب میں کوئی سایہ دار جگہ نہ تھی ۔ چنانچہ وہ بھی ایک کونے میں کھڑا ہوکر دھوپ میں تپتا رہا۔ پندرہ منٹ بعد بس آئی جو مسافروں سے لدی ہوئی تھی ۔ وہ بھی ایک پاؤں پھنسا کر دروازے میں لٹک گیا۔ جب دفتر آیا تو اس کے بازو شل ہوچکے تھے اور پسینوں کے باعث برا حال تھا۔ یہاں بھی اس نے سوچا کہ واپس گھر ہولے لیکن پھر اسے خیال آنے لگا کہ اگر چھٹی کی تو باس کا غصہ برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل وہ علالت کی بنا پر پہلے بھی چھٹیاں کرچکا تھا ۔ مزید رخصتوں سے اس کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی تھی۔جب دفتر میں داخل ہوا تو بجلی غائب۔مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اس نے کرسی سنبھالی اور کام میں جت گیا۔
ابھی وہ کام شروع ہی کررہا تھا کہ اچانک کمپیوٹر پر ایک ای میل کھل گئی جس میں یہ حدیث لکھی تھی:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کاہلی وسستی کی بناء پر متواتر تین جمعہ کی نمازیں چھوڑے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔”
یہ پڑھ کر خوف کے مارے اس کے رونگٹے کھڑےہوگئے۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ خدا نے اسے اپنی بندگی سے خارج کردیا ہو۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ کوئی اس سے مخاطب کرکےکہہ رہا ہے کہ تم نے باس کے خوف سے تو دھوپ کی حدت برداشت کرلی لیکن خدا کا کوئی خیال نہ کیا۔ وہ باس تو صرف چند ٹکے دیتا اور کام گدھوں کی طرح لیتا ہے اس کا توخوف ہے لیکن وہ خدا جس نے تمہیں بچپن سے جوانی تک صرف دیا ہی ہے اور کچھ نہیں لیا اس رحمان سے کوئی شرم و حیا نہیں۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ لنچ کرنے کی بجائے اٹھا اور سامنے مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے چل پڑا ۔ سورج اب بھی آگ اگل رہا تھا اور گرمی کی شدت پہلے سے زیادہ تھی۔ لیکن اب اس نے خدا کی غلامی کا قلادہ ڈال لیا تھا اور غلاموں کا شیوہ اطاعت ہے شکایت نہیں۔
از پروفیسر محمد عقیل

6 responses to this post.

  1. Posted by گمنام on 27/06/2013 at 4:54 شام

    zabardast aqeel sahihib. Khuda aap ko es se b acha lekhne ki tawfiq de.

    جواب دیں

تبصرہ کیجئے