کیا اللہ مجھ سے ناراض ہیں؟


. سوال
مجهے لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے بہت دور ہیں اور میں اس کے قرب کے قابل نہیں. مجهے لگتا هے کہ میرا باطن اس حد تک آلودہ ہے کہ وہ مجهے اپنی دوستی کے قابل ہی نہیں سمجهتا. میں نے قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں سے جواب ملا کہ راتوں کو اٹھ کر بخشش مانگنے والے اس کو پسند ہیں میں نے یہ بهی کرنا شروع کیا لیکن دل ابهی بهی خالی ہے.

دل پر بہت بهاری پتهر رکها محسوس ہوتا ہے. وہ کیفیت دل میں ہی نہیں اترتی جیسی اللہ کے قرب میں ہونی چاہیے.
شاید اس کی وجہ میرا آلودہ باطن ہے. لگتا ہے کہ میں دنیا کی سب سے زیادہ متکبر، ریاکار، اور ناشکرا ہوں. اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھ سے دوستی نہیں کرتے. اللہ مجھ سے ناراض ہیں تبهی وہ مجھ سے دور بہت دور محسوس ہوتے ہیں. میں کیسے ان سے دوستی کروں میں کیسے انہیں مناؤں.۔میں کیا کروں ؟میں اللہ کے بغیر بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں.
جواب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مجھے آپ کی ای میل پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ لوگ دنیا کے مسائل پر ڈسکس کرتے ، ان کے لئے پریشان ہوتے اور ان کے حل کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن جس موضوع پر آپ نے استفسار کیا ہے اس پر کوئی سوچتا تک نہیں۔ پہلے تو اس موضوع پر سوال کرنے پر مبارک ہو۔
پہلے تو اصولی بات سمجھ لیجے ۔ قرآن میں اللہ نے مقصد تخلیق یہ بتایا ہے کہ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ یعنی میں نے جن و انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میر ی عبادت کریں۔ عبادت کے لغوی معنی انتہائی عاجزی، تذلل اور پستی کے ہیں۔ چنانچہ مقصد تخلیق یہ ہے کہ اللہ کے سامنے انتہائی عجز، پستی، تذلل کا اظہار دل و دماغ اور پورے وجود کے ساتھ کیا جائے ۔ یہ وہ عبادت نہیں جو نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ یہ عبادت تو چونکہ مقصد تخلیق ہے اس لئے ساری زندگی جاری رہتی اور ہر ہر لمحے اس کا تسلسل رہتا ہے۔ جب یہ عجز تذلل و پستی انسان کے باطن میں داخل ہوتی ہے تو اس کے خارج میں اس کا اظہار کامل اطاعت سے ہوتا ہے۔ جیسے ایک غلام اپنے آقا کے حکم کو ماننے کے لئے بے تاب رہتا اور بلا کسی چوں چراں کے وہ اپنا سر خم کردیتا ہے اسی طرح ایک انسان بھی اطاعت کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔
اب آپ کی میل پر براہ راست آتا ہوں:
آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ آپ سے دور ہیں اور آپ ان کے قرب کے قابل نہیں اور وہ آپ کو اپنی دوستی کے قابل نہیں سمجھتے ۔ آپ کو خیال اس لئے پیش آیا کہ بقول آپ کے دل ابهی بهی خالی ہے. دل پر بہت بهاری پتهر رکها محسوس ہوتا ہے. وہ کیفیت دل میں ہی نہیں اترتی جیسی اللہ کے قرب میں ہونی چاہیے.
یہی وہ غلطی ہے جو اکثر راہ خدا پر چلنے والے لوگوں کو ہوجاتی ہے۔ دیکھیں مقصود کیفیت نہیں، لذت نہیں بلکہ اطاعت ہے، بندگی ہے، عاجزی ہے تذلل ہے پستی ہے۔ آپ نماز خدا کی رضا کے لئے پڑھتے ہیں، اس سے باتیں اس سے تعلق مضبوط کرنے کے لئے کرتے ہیں، تو پھر اس میں لذت و کیفیت کہاں سے آگئی؟ اگر آپ نے کیفیت کے حصول کے لئے عبادت کی تو پھر بندگی میں اخلاص کہاں رہا؟ اصل مقصد یاد رکھیں کہ خدا کے حکم کی تعمیل اور اس کے آگے خود کو مٹادینا ہے اور بس۔ اب لذت ملتی ہے تو اسکا کرم اور نہ ملے تو اس کی مرضی۔
دیکھیں ہم جب کسی بچے کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں تو شروع میں کہتے ہیں کہ تمہیں ٹافی ملے گی ، تمہیں پارک لے کر جائیں گے، زو چلیں گے۔ تو بچہ پڑھنے کی جانب راغب ہوجاتا ہے۔ بچہ لالچ میں یہ کام کرتا ہے لیکن جب بڑا ہوجاتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اصل مقصد تو پڑھائی کرنا تھا باقی چیزیں تو بہلاوے کے لئے تھیں۔ بالکل یہی معاملہ اللہ سے تعلق کا ہے۔ جب آپ شروع میں اللہ سے تعلق قائم کرنے لگیں تو کیفیت، لذت ، جذب و مستی ذوق و شوق نصیب ہوتا ہے ۔ بندہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ خوش ہیں اسی لئے یہ سب مل رہا ہے لیکن یہ اصل میں ایک بچے کو دئیے جانے والی ٹافیا ں ہوتی ہیں۔ جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو اس کو یہ ٹافیاں ملنا بند ہوجاتی ہیں کیونکہ اب اسے ان سہاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اللہ ناراض ہوگئے ہیں شاید انہوں نے دوستی ختم کرلی، شاید وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے وغیرہ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مزید قریب کرنے کے لئے ہمیں بڑا بنادیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب بنا سہارے ہم اس کے قریب آئیں، اس کی اطاعت کریں، اس کی غلامی کریں اور ایسا کرنے میں جو اجر ہے وہ اس عبادت سے زیادہ ہے جس میں لذت و کیفیت ہو۔
آپ نے لکھا ہے:
شاید اس کی وجہ میرا آلودہ باطن ہے. لگتا ہے کہ میں دنیا کی سب سے زیادہ متکبر، ریاکار، اور ناشکرا ہوں. اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھ سے دوستی نہیں کرتے.
یہ سب آپ کا وہم ہے۔ اللہ آپ سے دوستی رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے دوست کو آزماتے بھی ہیں کہ یہ ٹافیوں کے لئے دوستی رکھتا تھا یا میرے لئے۔ایک مثال کوٹ کرنے پر مجبو ہوں کہ شوہر اور بیوی کے تعلق میں ابتدا میں محبت میں جوش و ولولہ، کیفیت و لذت زیادہ ہوتی ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس مین کمی آنی شروع ہوجاتی ہے۔ عام طور پر میاں بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید محبت کم ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ یہ محبت کی اظہار کی نوعیت میں تبدیلی کی علامت ہوتی ہے اور اب محبت انسیت میں بدل جاتی ہے جو ابتدائی محبت سے زیادہ گہری، پائیدار اور موثر ہوتی ہے۔لیکن میاں بیوی کے تعلق کا اصل امتحان اسی وقت شروع ہوتا ہے جب کیفیت ایک بے کیف انسیت مین بدل جاتی ہے۔
آپ نے لکھا ہے:
. لیکن اب محسوس ہوتا ہے یہ اور بڑھ گیا ہے. اللہ مجھ سے ناراض ہیں تبهی وہ مجھ سے دور بہت دور محسوس ہوتے ہیں. میں کیسے ان سے دوستی کروں میں کیسے انہیں مناؤں. میں کیا کروں میں اللہ کے بغیر بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں.

اللہ کی ناراضگی یا رضا کو کیفیت سے جانچنا درست نہیں ۔ خدا کی رضا کا دنیا میں معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے ہی نہیں بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو خدا راتوں میں پانچوں وقت نماز میں اپنے پاس بلا رہا اور راتوں میں اٹھا رہا ہے تو کیا یہ کام وہ کسی دوست کے ساتھ کرے گا یا دشمن کے ساتھ؟ چنانچہ جب وہ آپ کو اپنے پاس بلانا چھوڑ دے تو سمجھ لیں اس نے آپ کو دور کردیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سے کیسے دوستی کی جائے ۔ اس پر ایک قصہ سناؤں گا:
ایک مرتبہ ایک بزرگ بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا تو اور اس نے پوچھا:
"حضور عید کڈاں؟ (حضور عید کب ہوگی؟) وہ بزرگ مستغرق تھے تو بجائے اس کے کہ یہ جواب دیتے کہ چاند فلاں دن تک نطر آجائے گا انہوں نے کہا: ” یار ملے جڈاں”۔ ( جب یار ملتا ہے تب عید ہوتی ہے)
اس نے پوچھا ۔ ” یار ملے کڈاں”؟ (یار کب ملتا ہے)
بزرگ نے فرمایا۔” میں مکے جڈاں”۔ (جب میں مٹ جاتی ہے تو یار مل جاتا ہے)
بس جب آپ کی "میں ” اس کی "میں” کے آگے جھک جائے مٹ جائے ختم ہوجائے تو وہ آپ کو مل جائے گا۔
عقیل

6 responses to this post.

  1. Reblogged this on ZAVIA n and commented:
    main apnay app ku is kabil hi nahi samjhta bus itna yaqeen hai r dua bhi k woh hamaray haal pay raham zarr farmaingay ameen

    جواب دیں

تبصرہ کیجئے