زلیخا اور یوسف

زلیخا جب  حضرت یوسف کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوگئی اور اس کی حضرت یوسف کو لبھانے کی  کوشش ناکام بھی ہوگئی تو یہ خبر شہر میں پھیل گئی۔ بالخصوص مصر کے اعلی طبقے کی عورتیں زلیخا پر لعن طن کرنے لگیں کہ وہ اپنے غلام کی محبت میں گرفتار ہوگئی ہے۔ زلیخاکو یہ سب باتیں سن کر بڑی پریشانی ہوئی۔ وہ اس پریشانی کے عالم میں ایک بزرگ کے پاس گئی اور ان کو بتایا کہ کس طر ح عورتیں اس کا مذاق بنا رہی ہیں۔ بزرگ مسکرائے اور کہا کہ پریشان نہ ہو، جو تجھے  نظر آتا ہے، وہ ان کو بھی دکھادے۔

چنانچہ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا ا

ور ان سب خواتین کو مدعو کیا۔ اور اچانک یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے آنے کا کہا۔ وہ سب عورتیں مبہوت ہوکر رہ گئیں   اور اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئیں جس میں زلیخا گرفتا رتھی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کر وہی تقاضا کرنا شروع کردیا جو زلیخا کررہی تھی۔ گویا  حضرت یوسف کے مشاہدے سے پہلے وہ خواتین جس بات پر وہ زلیخا کو طنزو رشنیع کا نشانہ بنارہی تھیں ، اس تجربے کے بعد خود اسی دام میں گرفتا ر ہوگئیں۔

دوسری جانب حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو  اپنے رب کی محبت میں گرفتا ر تھے۔ انہوں نے بھی رب کی برھان کا مشاہدہ کررکھا تھا، انہیں علم تھا کہ ان کے آبا و اجداد یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم کا خدا ان غیر اخلاقی باتوں کو سخت ناپسند کرتا  ہے۔ چنانچہ وہ اپنے محبوب کی رضا سے بندھ گئے۔ اس نوجوانی کے عالم میں نہ صرف ان آفرز کو ٹھکرادیا بلکہ خود اپنے محبوب سے درخواست کی کہ ان عورتوں سے بچنے کے لیے اگر مجھے قید بھی کردیا جائے تو قبول ہے۔ چنانچہ درخواست قبول کرلی گئی اور قید ہوگئی۔

دونوں محبتوں کو دیکھیے۔ ایک زلیخا اور عورتوں کی چاہت اور دوسری حضرت یوسف کی اپنے رب سے محبت۔ زلیخا نفس کی لذت  کی خاطر محبت میں مبتلا تھی تو حضرت یوسف اپنے رب    کی خوشی کے متمنی۔ زلیخا  کو اپنے محبوب (حضرت یوسف ) کی پسند ناپسند کا کوئی خیال نہ تھا اور حضرت یوسف سراپا اطاعت۔ زلیخاظاہری وجود  کی لذت کی متمنی تھی اور حضرت یوسف   باطنی شخصیت کا  ابدی سکون چاہتے تھے۔  زلیخا جذبات میں بہک  کر بدکردار بن  رہی  تھی اور حضرت یوسف نفس پر  قابو کرکے  اعلی کردار کا مظاہر کررہے تھے۔ زلیخا چند لمحوں کی لذت پر تمام اخلاقی اقدار قربان کرنے پر تلی تھی اور حضرت یوسف  عارضی تکلیف جھیل کر خود کو بادشاہت کے لیے اہل ثابت کررہے تھے۔

بالآخر حضرت یوسف کو رہائی ملی اور بادشاہ کا قرب نصیب ہوا جبکہ ان تمام عورتوں کو زلیخا سمیت معافی مانگنی پڑی اور حضرت یوسف کی پاکیزگی کی گواہی دینے پر مجبور ہوگئے  ۔ اس کے بعد ان عورتوں کی کیا جگ ہنسائی ہوئی ہوگی، اس کا تصور ممکن نہیں۔

زلیخا اور حضرت یوسف کا طرز زندگی ایک استعارہ ہے ۔  جو لوگ دنیا  کی محبت میں عارضی لذتوں میں  بہک جاتے ہیں ان کا انجام زلیخا  اور اس کی ساتھیوں کی طرح ہوتا ہے۔ اور جو لوگ اپنے  رب کی محبت میں نفس پر قابو کرکے اعلی اخلاقی اقدار کے امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی ترقی پاکر اعلی مقام حاصل کرتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ابدی نعمتوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد عقیل

تبصرہ کیجئے

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: