میں پارک میں واک کررہا تھا کہ اچانک محسوس ہوا کوئی میرے ساتھ ساتھ دوڑ رہا ہے۔ میں نے اگنور کیا لیکن کسی کے دوڑنے کی آواز آتی رہی۔ میں نے اسپیڈ تیز کردی تو لگا اس نے بھی اپنی رفتار بڑھادی ہے ۔کچھ دیر بعد میں نے اپنی رفتار کم کردی تو محسوس ہوا کہ اس بھی آہستہ بھاگنا شروع کردیا ہے۔ اب میں سوچنے لگا کہ عجیب آدمی ہے، یا تو آگے نکل جائے یا پیچھے رہ جائے، ساتھ ساتھ کیوں بھاگ رہا ہے۔میں اچانک رک گیا ، تو یوں محسوس ہوا وہ بھی رک گیا ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر جاگنگ ٹریک کا جائزہ لیا تو ارد گرد کوئی بھی نہ تھا۔
کچھ دیر کھڑا میں سوچنے لگا کہ اگر کوئی نہیں ہے تو ساتھ کون دوڑ رہا تھا۔ پھر میں نے آواز پر غور کیا تو وہ کچھ چھن چھن کی آواز تھی ۔ میں نے اپنی جیب پر ہاتھ مارا تو گاڑی کی چابیاں تھیں جو میرے بھاگنے کی وجہ سے بج رہی تھیں۔ ان کی ایکو کچھ اس قسم کی آواز پیدا کررہی تھی کہ کوئی پیچھے چل رہا ہے۔
ہماری زندگی کے اکثر معاملات اسی قسم کے وہم اور شک سے آراستہ ہوتے ہیں جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ کبھی ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمار ے کسی رشتہ دار نے ہمیں چڑانے کے لیے اچھا لباس پہنا ہے ، کبھی لگتا ہے کسی ساس یا بہو نے ہمیں تنگ کرنے کے لیے برتن توڑا ہے، کبھی محسوس ہوتا ہے کسی دوست نے جان بوجھ کر فون نہیں اٹھایا، کبھی لگتا ہے دفتر کے کسی کولیگ نے سازش کی بنا پر یہ مذاق کیا اور کبھی یہ لگتا ہے ہمارے کسی ساتھی نے ہمیں نیچا دکھانے کے لیے اپنی بات اونچی آواز میں کہی۔
یاد رکھیے ، ان میں سے نوے فی صد شکوک محض وہم ہوتے ہیں اور یہ ہمارے دماغ کی جیب میں رکھی وسوسوں کی چابیوں کی بازگشت ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ہی وجود کی آوازوں سے دھوکا کھاجاتے اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ فلاں شخص ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ جب کبھی ایسا محسوس ہو تو ان آوازوں کو نظر انداز کرکے آگےبڑھ جائیں اور اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک پیچھا کرنے والے شخص کو وہم نہیں بلکہ یقین کی آنکھ سے نہ دیکھ لیں۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو ہم ایک ایسے فرضی دشمن کو شکست دینے کے لیے دوڑ دوڑ کر ہلکان ہوجائیں گے جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
ڈاکٹر محمد عقیل