Archive for the ‘آخرت’ Category

کہیں یہ مسجد ضرار تو نہیں؟

کہیں یہ مسجد ضرار تو نہیں؟
ڈاکٹر محمد عقیل
مسجد کو خد ا کا گھر کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسی جگہ جہاں فرشتے خاص طور پر رحمتیں کی بارش کے لیے جمع ہوتے ، جہاں خدا کی خصوصی برکتیں عبادت گذاروں پر ناز ل ہوتیں اور جہاں خدا کی قربت کا غیر معمولی احساس ہوتا ہے۔مسجد کی پاکیزہ فضا اردگرد کو پڑھنا جاری رکھیں

عمل صالح کا محدود تصور


عمل صالح کا محدود تصور
پروفیسر محمد عقیل
ہم جانتے ہیں کہ انسان کی نجات دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایمان اور عمل صالح یا نیک اعمال۔ ایمان کا معاملہ تو بہت حد تک واضح ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمل صالح سے کیا مراد ہے؟کیا اس سے مراد صرف نماز روزہ حج زکوٰۃ ہے ؟ کیا یہ تصور صرف دینی اعمال تک محدود ہے ؟ کیا اس میں دنیا کے حوالے سے کی گئی کوئی اچھائی شامل نہیں ہوسکتی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کے جدید ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ سائنسدانوں نے انسان کے لیے میڈیکل، ایجوکیشن، کمیونکیشن غرض ہر میدا ن میں بے شمار سہولیات پیدا کردیں لیکن مذہبی طبقہ اسے عمل صالح ماننے کو تیار نہیں۔
مذہبی طبقہ مدرسے میں پڑھنے کو تو نیکی مانتا ہے لیکن دنیاوی علوم پڑھنے کو نیک عمل تصور نہیں کرتا۔ وہ مسجد کی تعمیر کو تو صدقہ جاریہ کہتا ہے لیکن ہسپتال یا اسکول کی تعمیر کو صدقہ کہنے سے کتراتا ہے۔ وہ تسبیحات کو دس ہزار مرتبہ پڑھنے کو تو باعث اجرو ثواب کہتا ہے لیکن اچھی بات کرنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ دوسری جانب ہم دیکھیں تو ہماری روزمرہ زندگی کے محض چند گھنٹے ہی عبادات اور دینی امور میں گذرتی ہے۔ ہماری زندگی کے اکثر لمحات دنیاوی معاملات میں گذرتے ہیں۔
گذشتہ مضمون میں ہم نے بات کی تھی کہ نیکی سے مراد ہر وہ عمل ہے جو خدا کی بیان کردہ حلا ل و حرام کی حدود قیود میں رہتے ہوئے خلوص نیت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد کسی بھی مخلوق کو جائز طور پر فائدہ پہنچانا ہو۔ اس تعریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی عمل کے نیک ہونے کے لیے لازمی نہیں کہ اس کا تعلق دین سے ہو۔ کوئی بھی دنیاوی عمل جو اس تعریف پر پورا اترے وہ نیکی ہے اور اسی طرح اللہ کے ہاں مقبول ہے جیسے کوئی بھی دینی عمل۔
دوسری جانب جب ہم قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں تو نیک اعمال صرف دین ہی نہیں دنیاوی امور سے متعلق بھی ہیں۔ جیسے سورہ البقرہ میں نیکی کے بارے میں یہ بیان ہوا کہ نیکی محض مشرق و مغرب کی جانب منہ کرلینے کا نام نہیں بلکہ نیکی میں ایمان لانے کا عمل بھی شامل ہے، اس میں معاشرے کے مختلف مستحقین کو صدقہ دینا بھی شامل ہے ، نماز اور زکوٰۃ کی عبادات بھی ہیں اور مختلف مواقع پر صبر کرنا بھی شامل ہے۔ یعنی نیکی کا دائرہ کار صرف دینی امور ہی نہیں بلکہ دنیوی معاملات تک وسیع ہے۔ اسی طرح ہم احادیث کو دیکھیں تو وہاں تو روزی کمانا، گناہ سے خود کو روکنا، کسی کو سواری پر چڑھنے میں مدد کردینا حتی کہ کتے کو پانی پلانے تک کو نیکی کہا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر و ہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے دنیا وی کاموں کو خدا کے نزدیک ناقابل قبول بنانے کی کوشش کی۔ ذیل میں ہم ان اعمال کا جائزہ لے رہے ہیں:
۱۔عمل صالح کی فہرست مرتب کرنا
اس میں سب سے پہلا محرک تو ظاہر ی متن بنا۔ یعنی جن باتوں کا ذکر قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ آگیا اسے تو نیکی قراردیا گیا لیکن جن کا ذکر نہیں آیا انہیں نیکی نہیں مانا گیا۔ مثال کے طور پرکسی بھوکے کو کھانا کھلانے کا عمل قرآن میں نیکی کے طور پر بیان ہوا ہے تو اسے تمام مذہبی طبقات نیکی مانتے ہیں۔ لیکن کسی بچے کی اسکول فیس ادا کرنے کو اس درجے میں نیکی نہ مانا جاتا ہے اور نہ اسے بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بھوکے کو کھانا کھلانا تو ایک وقت کا کام ہے لیکن اسکول یا کالج میں بچے کو پڑھا کر اسے مچھلی پکڑنے کا کانٹا دیا جارہا ہے جس کی مدد سے وہ مستقبل میں ہزاروں مرتبہ کھانا کھاسکتا ہے۔یعنی یہاں نیکی کا تعین کرتے ہوئے استقرائی یعنی Inductive اپروچ سے کام نہین لیا گیا۔اگر لیا جاتا تو سارے اچھے کام اس میں آجاتے۔
۲۔ دنیا سے نفرت
دنیاوی امو ر کو نیکی یا عمل صالح میں شمار نہ کرنے کا ایک اور سبب دنیا سے نفرت ہے۔ ہمارے مذہب پر کچھ صدیوں بعد ہی تصوف کی ترک دنیا کی تعلیمات کا غلبہ ہوگیا۔ چنانچہ دنیا کو حقیر کو اس کے عمل کو شیطانی عمل سمجھا جانے لگا۔ اس کی وجہ سے روزی کمانا، میعار زندگی بلند کرنا، دنیاوی ہنر یا تعلیم حاصل کرنا، مفاد عامہ کے لیے فلاحی کام جیسے سڑک بنوانا، پناہ گاہیں تعمیر کرنا وغیرہ کو عمل صالح میں شمار کرنے سے انکار نہیں تو پہلو تہی ضرور کی گئی۔ حالانکہ دین میں اصل تقسیم دنیا و دین کی نہیں دنیا و آخرت کی ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو صدقہ جاریہ میں کنواں کھدوانا حدیث میں صراحتا عمل صالح بیان ہوا ہے ۔ اس بنیاد پر سارے وہ کام جو عوام کے فائدے کے ہوں اور نیکی کی مندرجہ بالا تعریف پر اترتے ہوں وہ عمل صالح میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ایک شخص اگر اپنی فلاح کا کوئی کام کررہا ہے اور وہ دین کے دائرے میں ہے تو وہ بھی نیکی ہے۔ اس اصول کے تحت روزی کمانا، بچوں کی تربیت، سب کچھ آجاتا ہے۔
۳۔ عمل کی ظاہری ہیت
عمل صالح میں دنیاوی معاملات شامل نہ ہونے کی ایک وجہ عمل کی ظاہری ہیت بھی ہے۔ کچھ اعمال اپنے ظاہر ہی میں نیکی نظر آتے ہیں جبکہ کچھ اعمال اس حیثیت سے نیکی نہیں دکھائی دیتے۔ مثال کے طور پر نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، قربانی، تسبیحات ، تلاوت وغیرہ اپنے ظاہر ہی میں اعمال صالح معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ دوسری جانب حقوق العباد سے متعلق نیک اعمال اپنے ظاہر میں اس طرح نیکی معلوم نہیں ہوتے جیسے تعلق باللہ کے امور۔ اسی بنا پر عوام اور کچھ علماء کو ان معاملات کو نیکی کے طور پر لینے میں ایک نفسیاتی تردد محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ جس اصول کے تحت تعلق باللہ کے امور اعمال صالح ہیں اسی اصول کے تحت روزمرہ کی زندگی کے معاملات بھی صالح اعمال ہیں۔ اصول وہی ہے یہ کوئی بھی عمل جو مخصوص شرائط کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد اپنی یا کسی مخلوق کی فلاح ہو۔
۴۔ دین و دنیا کی تقسیم
ایک اور وجہ دنیا کو دین سے الگ سمجھنا ہے۔ حالانکہ اصل تقسیم دین و دنیا کی نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی ہے۔ دنیاوی زندگی میں تمام امور بشمول دین شامل ہیں ۔اگرکوئی شخص دین کا کام کررہا ہے تو دراصل وہ خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچارہا بلکہ خدا کی مخلوق کو پیغام پہنچا کر ان کے لیے نفع کا کام کررہا ہے۔ یہی کام ایک ایک ڈاکٹر ، انجنئیر ، مصنف یا کوئی دوسری دنیا وی عمل کرنے والا شخص کررہا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوسکتا ہے کہ دنیاوی کاموں کی بالعموم کوئی فیس لی جاتی ہے اور دینی کام عام طور پر بغیر کسی فیس کے ہوتے ہیں۔ لیکن نوعیت کے اعتبار سے دونوں کاموں میں کوئی فرق نہیں ، دونوں مخلوق کی فلاح کے لیے ہیں اور دونوں کا اجر آخرت میں ملنے کا امکان ہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر کوئی استاد مدرسے میں کمپیوٹر کی تعلیم دے رہا ہے اور اس کے چالیس ہزار روپے لے رہا ہے تو اس کی تدریس کو نیکی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ یہ کام ایک دینی مدرسے میں کررہا ہے۔ لیکن اگر وہ یہی کورس کسی یونی ورسٹی میں پڑھائے اور اتنی ہی فیس لے تو اسے نیکی نہیں گردانا جاتا۔ حالانکہ دونوں کا مقصد فلاح پہنچانا ہے اور اس لحاظ سے دونوں اعمال نیکی میں شمار ہوتے ہیں۔
۵۔تمام غیر مسلموں کو کافر جاننا
ایک اور وجہ یہ مفروضہ ہے کہ تمام غیر مسلم کافر ہیں اور ان کے اعمال رائگاں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سائنسدان جب کوئی چیز ایجاد کرتا ہے اور اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن اس پر سب سے پہلے یہ چیک لگایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں۔اگر وہ غیر مسلم ہو تو ہم سب پہلے ہی فتوی لگا دیتے ہیں کہ اس کا تو عمل قابل قبول ہی نہیں۔حالانکہ ہمیں علم نہیں کہ کیا اس پر اتمام حجت ہوچکی یا نہیں، کیا اس تک خدا کا پیغام صحیح معنوں میں پہنچ گیا؟ کیا اس نے سب کچھ سمجھ کر، جان کر اور مان کر اسلام کا انکار کردیا؟ ظاہر ہے ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں ۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم اس کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور فیصلہ خود کرنے کی بجائے حقیقت جاننے والی ہستی کو سونپ دیں۔
۶۔ نیت کا پوشید ہونا
ایک اور وجہ نیت کا ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے۔ دینی اعمال میں نیت باقاعدہ نظر آتی ہے کہ یہ عمل خدا کے لیے خاص ہے۔ مثال کے طور پر نماز یا روزے میں باقاعدہ یہ نیت ہوتی ہے کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے۔دوسری جانب دنیاوی عمل خواہ کتنا ہی فلاح و بہبود کا کام کیوں نہ ہو ، اسے نیکی تسلیم کرنے کے لیے فلٹریشن سے گذرنا ہوتا ہے۔ جیسے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا عمل اپنی فلاح سے متعلق ہے اور نیکی ہے۔ لیکن اسے بلاکسی تخصیص کے دنیاداری سمجھا جاتا ہے اور نیکی نہیں مانا جاتا۔حالانکہ ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے اور اپنی فیملی کے روزگار کا ذریعہ بنتا ہے، وہ اپنی خدمات سے سوسائٹی کی خدمت کرتا ہے، وہ اپنی آمدنی سے ملک کے جی ڈی پی میں خاطر خواہ اضافہ کرتا ہے اور اس طرح ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ سارے کام چونکہ اپنی یا مخلوق کی فلاح کے ہیں اس لیے نیکی ہیں۔
خلاصہ
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی کا تصور دین میں محدود نہیں بلکہ وسیع ہے۔ اس کا دائرہ کار صرف دینی نہیں بلکہ دنیاوی اعمال تک پھیلا ہوا ہے۔ خدا کے نزدیک ہر وہ عمل نیکی ہے جو اس کی حرام و حلال کی قیود میں رہتے ہوئے نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد اپنی یا مخلوق کی براہ راست یا بالواسطہ فلاح ہو۔
پروفیسر محمد عقیل

نیکی کا درست تصور

نیکی کا درست تصور

ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری نجات اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں گناہوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیکی کس عمل یا عقیدے کا نام ہے؟ کیا نیکی کا تصور محض نماز روزہ حج زکوٰۃ اور دیگر ظاہری عبادات تک محدود ہے یا اس کا دائرہ کار زندگی کے ہر معاملے تک پہنچتا ہے؟ کیا اس کی کوئی فہرست قرآن و سنت میں موجود ہے یا اسے عقل و فطرت سے بھی متعین کیا جاسکتا ہے؟کیا ہر نیکی کا وزن اس کی گنتی ہے لحاظ سے ہے یا اس کی کمیت یعنی کوالٹی کے اعتبار سے متعین ہوتا ہے؟ کیا نیکی صرف ظاہری عمل کا نام ہے باطنی نیت بھی نیکی میں شامل ہوسکتی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو نیکی کے تصور کو جاننے اور درست طور پر جاننے میں بہت اہم ہیں۔ اگر ہم قرآن کا جائزہ لیں تو قرآن سب سے پہلے جو بات ہمیں بتاتا ہے وہ یہ کہ اللہ نے ہمیں صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ گویا عبادت ہی نیکی ہے اور عبادت سے گریز کرنا گناہ۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کون سا عمل نیکی ہے؟ اس کےجواب میں بالعمو م روایتی حلقے ایک فہرست مرتب کردیتے ہیں جس میں اعمال صالح اور گناہوں کو بیان کردیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل سے یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ اچھے اور برے اعمال کے بارے میں ایک اندازہ وہوجاتا ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات اور ماحول میں یہ فہرست کارآمد نہیں رہتی۔ نیز اس فہرست کا دائرہ کار چند مخصوص معاملات تک محدود ہوجاتا ہے۔ اس اپروچ کا ایک اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ بندہ عبادت، گناہ اور نیکی کو متعین کرنے کے لیے کسی مذہبی عالم کی تشریح کا محتاج رہتا ہے۔ چونکہ ہمارے مذہبی طبقے پر تصوف کا بڑا گہرا اثر ہے اس لیے دنیا سے متعلق اچھے اعمال کو عام طور پر وہ نیکیوں میں شمار نہیں کرپاتے کیوں ان کی دانست میں اس سے دنیا پرستی کو فروغ مل سکتا ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نیکی کی ایک جامع تعریف قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کی جائے اور اسی تناظر میں نیک اعمال اور گناہوں کا تعین کرنے کے عمل کو سیکھا جائے ۔ نیکی کی تعریف اگر ہم قرآن و سنت کی روشنی میں کریں تو کچھ یوں بنتی ہے:
نیکی سے مراد ہر وہ عمل ہے جو خدا کی بیان کردہ حلا ل و حرام کی حدود قیود میں رہتے ہوئے خلوص نیت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد کسی بھی مخلوق کو جائز طور پر فائدہ پہنچانا ہو۔
اس کی تشریح کی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ پہلی بات کہ نیکی سے مراد کوئی بھی عمل ہے ۔ ضروری نہیں کہ یہ عمل صرف دینی امور سے متعلق ہو، یہ دنیا کا بھی کوئی معاملہ ہوسکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ آگے بیان کردہ شرائط پوری ہورہی ہوں۔جیسا کہ اس آیت کو دیکھیں:
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ١٧٧؁
نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھر لو ۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اور اللہ سے محبت کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں ، سوال کرنے والوں کو اور غلامی سے نجات دلانے کے لیے دے۔ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے۔ نیز (نیک لوگ وہ ہیں کہ) جب عہد کریں تو اسے پورا کریں اور بدحالی ، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں ۔ ایسے ہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔ (البقرہ ۱۷۷:۲)
ان آیات کو غور سے دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے نیکی میں ایمان لانے کا عمل بھی شامل ہے، اس میں معاشرے کے مختلف مستحقین کو صدقہ دینا بھی شامل ہے ، نماز اور زکوٰۃ کی عبادات بھی ہیں اور مختلف مواقع پر صبر کرنا بھی شامل ہے۔ یعنی نیکی کا دائرہ کار صرف دینی امور ہی نہیں بلکہ دنیوی معاملات تک وسیع ہے۔
۲۔کسی عمل کے عمل صالح ہونے کے لیے پہلی شرط خدا کی بیان کردہ حلا ل و حرام کی قید کا خیال رکھنا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ خدا نے حلا ل و حرام کی قیود صرف وحی کے ذریعے ہی نہیں بتائی بلکہ انسان کی فطرت کے اندر بھی جائز و ناجائز کو طے کرنے کی بنیادی صلاحیت رکھ دی ہے۔ بالخصوص اخلاقیات کے اکر معاملات میں اصل فتوی دل کا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا Ċ۝۽ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا Ď۝۽
اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا ہے۔ پھر اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کا الہام (القاء) کیا۔(سورہ الشمس ۹۱، آیات ۷-۸)
تو اصل بات یہ ہے کہ کسی عمل کے نیکی ہونے کی پہلی شرط یہی ہے کہ وہ خدا کی بیان کردہ حدودو قیود کے اندر ہو۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے لیکن وہ ناپاکی کی حالت میں ہے تو اس نے خدا کی حلال و حرام کی حدود کی خلاف ورزی کی۔ چنانچہ بلاعذر ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا نیکی نہیں بلکہ گناہ تصور ہوگا۔ ایسے ہی ایک شخص حج اگر حرام کی کمائی سے کررہا ہے تو یہ عمل بظاہر عبادت ہونے کے باوجود حقیقت میں نیکی نہیں۔اسی طرح ایک شخص اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے لیکن وہ اس چوری کے پیسوں سے یہ کام کررہا ہے ۔بچوں کا پیٹ پالنا ایک نیک کام ہے لیکن اس کو پورا کرتے وقت خد کے بیان کردہ حدود کی پاسداری نہیں کی گئی، اس لیے یہ نیکی نہیں۔
۳۔ کسی عمل کے نیکی ہونے کی دوسری شرط یہ ہے کہ نیت کے اخلاص کا ہونا ہے۔ یعنی جس مقصد کے لیے وہ کام کیا جارہا ہے وہ واضح طور پر یا لاشعور میں کہیں موجود ہونا چاہیے۔
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصاً لَّہُ الدِّیْنَ أَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ.(الزمر ۳۹ : ۲)
’’بے شک ، ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف مطابق حق اتاری ہے تو تم اللہ ہی کی بندگی کرو اطاعت کو اسی کے لیے خاص کرتے ہوئے۔ سن لو کہ خالص اطاعت کا سزاوار اللہ ہی ہے۔‘‘
مثلا ایک شخص روزہ رکھ رہا ہے لیکن اس کا مقصد صرف لوگوں کو دکھانا ہے تو یہاں اخلاص کی کمی ہے جس کی بنا پر اس کا روزہ عبادت یا نیکی نہیں۔ ایک شخص میدا ن جنگ میں جہاد کررہا ہے لیکن مقصد مال غنیمت ہے تو یہ نیکی نہیں۔لیکن ایک شخص اخلاص کے ساتھ اپنی محنت کی کمائی سے کسی کو ایذا پہنچائے بنا زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو یہ عبادت یا نیکی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بعض اوقات نیت کا اظہار باقاعدہ زبان سے نہیں کیا جاتا اور یہ لاشعور میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے۔ جیسے ایک شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا اور اس کچھ کہے بنا نیت باندھ لی۔ یہاں اس کا عمل یہ بتارہا ہے کہ وہ شخص نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا اسی لیے نیت باندھی ہے۔
دینی معاملات میں تو بالعموم اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ عمل اللہ کے لیے کیا جارہا ہے لیکن دنیوی معاملات میں عمل کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی نیت کا اظہار اکثر اوقات نہیں ہوپاتا۔ مثال کے طور پر ایک شخص روزانہ کمانے کو گھر سے نکلتا ہے تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اس عمل میں اللہ کو راضی کرنے کی نیت موجود نہیں۔ اسی بنا پر کچھ لوگ کمانے کو عمل کو دنیا داری کہہ کر اسے نیکی سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو وہ شخص روزی کماتے وقت اللہ کی حدود و قیود کا خیال رکھ رہا ہے ۔ چنانچہ جس طرح نماز پڑھتے وقت لازم نہیں کہ زبان سے نیت کی جائے اسی طرح دنیاوی نیکیوں میں بھی ممکن نہیں کہ شعوری سطح پر ہر مرتبہ بیان کی جاری کیا جائے۔ بس ایک عمومی ارادہ کافی ہوتا ہے۔
۴۔ عمل صالح ہونے کی تیسر ی شرط اس عمل کو محنت یا مہارت سے یا خوش اسلوبی سے انجام دینا ہے۔
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39؀ۙ
اور یہ کہ انسان کے لیئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے(النجم ۳۹:۵۳)
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان کے لیے نیکی اتنا ہی عمل ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ کسی دوسرے کا عمل اس کے لیے نیکی نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اس میں اس کی بالواسطہ کوشش شامل ہو۔ اس کے علاوہ جو بھی عمل کیا جائے وہ خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جائے۔ اس کامطلب ہے کہ اس عمل میں جتنی بے دلی شامل ہوگی اتنا ہی وہ عبادت سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ یعنی و ہ کام جو مارے باندھے کیے جاِئیں وہ نیکی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اس طرح نماز پڑھ رہا تھا کہ رکوع و سجود درست طور پر ادا نہیں ہورہے تھے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دوبارہ پڑھو تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ اسی طرح قرآن میں منافقین کی نماز کا ذکر ہے کہ وہ مارے باندھے مسجد میں آتے ہیں ۔
دنیاوی معاملات میں بھی محنت اور خوش اسلوبی ضروری ہے۔ ایک شخص جب ملازمت کرتا ہے تو کام چوری کرنا یا اپنی ذات کو آرام دینے کے لیے چور راستے تلاش کرنا نیکی کو گناہ میں بدل سکتا ہے۔
۵۔ آخری شرط یہ ہے کہ عمل کا مقصد کسی نہ کسی مخلوق کو براہ راست یا بالواسطہ نفع پہنچانا ہو۔ یہ نفع دنیا کا بھی ہوسکتا ہے اور دین کا بھی۔دین کے نفع کو نیکی ماننا تو ایک مسلمہ ہے لیکن دنیوی کاموں کو بھی متعدد احادیث میں صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا ہے۔
۱۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعمال میں سے کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ پر ایمان اور اس کے راستے میں جہاد؟ میں نے عرض کیا کہ کونسا غلام آزاد کرنا سب سے افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اس کے مالک کے نزدیک سب سے اچھا اور قیمتی ہو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی کے کام میں اس سے تعاون کرو یا کسی بے ہنر آدمی کے لئے کام کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو اس لئے کہ اس کی حیثیت تیری اپنی جان پر صدقہ کی طرح ہو گی۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 251)
۲۔ اچھائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔(مسلم)
۳۔ جو اپنے اہل وعیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اسی کے لئے صدقہ ہوگا۔(مسلم)
۴۔ تمہارے ہر ایک کی شرمگاہ میں صدقہ ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ کے رسول کیا ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اس میں بھی اس کے لئے ثواب ہے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا تو وہ اس کے لئے گناہ کا باعث ہوتا اسی طرح اگر وہ اسے حلال جگہ صرف کرے گا تو اس پر اس کو ثواب حاصل ہوگا۔(مسلم)
۵۔ دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے آدمی کو اس کی سواری پر سوار کرنا یا اس کا سامان اٹھانا یا اس کے سامان کو سواری سے اتارنا صدقہ ہے اور پاکیزہ بات کرنا صدقہ ہے اور نماز کی طرف چل کر جانے میں ہر قدم صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔(مسلم)
۶۔ کتے یا کسی جانور کو پانی پلانا بھی نیکی ہے ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2208)
۷۔ رشتے داری کا لحاظ رکھنا، گناہوں سے بچنا، مصیبت برداشت کرنا، اچھے اخلاق اپنا، قرض دار کو مہلت دینا سب اعمال نیکی ہیں۔(بخاری)
ا ن تمام روایات کو جمع کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ صدقہ یا نیکی سے مراد ہر و ہ عمل ہے جس میں خود کو یا کسی دوسری مخلوق کو نفع پہنچایا جارہا ہو۔ اس اصول کے تحت مثال کے طور پر ایک قاری اگر بچوں کو قرآن پڑھا رہا ہے تو چونکہ وہ انہیں دین کے معاملے میں نفع پہنچا رہا ہے تو اس کا عمل نیکی ہے۔ اسی طرح ایک استاد اگر بچوں کو کیمسٹری پڑھا رہا ہے تو اس کا مقصد دنیوی فائدہ پہنچانا ہے تو یہ بھی ویسے ہی نیکی ہے جیسے قرآن پڑھانا۔
بعض اوقات انسان کوئی عمل کسی دوسری مخلوق کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے لیے کررہا ہوتا ہے تو یہ بھی عبادت ہے۔ جیسے نماز پڑھنا خود کو دینی فائدہ پہنچانے کا عمل ہے،اسی طرح رزق کمانا، پڑھائی کرنا یا معلومات میں اضافہ کرنا خود کو دنیوی فائدہ پہنچانے کا عمل ہے اس لیے یہ بھی نیکی ہے۔
خلاصہ
اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نیکی کا دائرہ کار صرف دینی عبادات، مذہبی رسومات اور عقائد تک محدود نہیں بلکہ ہر اچھا عمل نیکی ہے بشرطیکہ اسے ان حدود قیود میں کیا جائے جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔
پروفیسر محمد عقیل

شیطان کا طریقہ واردات


ہمارے مذہبی لٹریچر میں شیطان پر کافی بحثیں کی گئی ہیں کہ وہ ازلی ہے یا ابدی، فرشتہ ہے یا جن،شکل و صورت کیسی ہے، رہتا کہاں ہے، کھاتا پیتا کیا ہے وغیرہ۔ لیکن قرآن نے شیطان کے ان پہلووں کی بجائے اس بات پر فوکس کیا ہے کہ وہ کس طرح انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

میرے رب


میرے رب!
میرا اب جی یہ چاہتا ہے
کہ اپنی ذاتِ خلوت سے
فریب نفس کی اس جلوت سے
ہجومِ ستمگراں، اس دنیا کی
ہر نسبت سے
جو تجھ سے دور کرے
ہر اس "نعمت” سے
ناطہ توڑ کر اپنا
تعلق توڑ کر اپنا
تیری منزل کی جانب
کہیں روپوش ہو جاؤں
میں اک درویش ہو جاؤں

از: سید اسراراحمد

چلو اس اور چلتے ہیں

 

چلو اس اور چلتے ہیں

(جنت کے طلب گاروں کے نام)

پروفیسر محمد عقیل

چلو اس اور چلتے ہیں

جہاں پھولوں  کی وادی   میں پرند ے  بات کرتے ہیں

جہاں آوارہ   بھنورے شام کو اٹھکھیلیاں کرتے، مچلتے ہیں

جہاں بادل  پہاڑوں پہ  ٹہرتے اور چلتے ہیں

جہاں ہر زیرو بم کے ساتھ ہی  موسم بدلتے ہیں

 

چلو اس اورچلتے ہیں

جہاں      سوچیں حقیقت  بن کے خود ہی   گنگناتی ہیں

جہاں قوس قزح کی سب  لکیریں مسکراتی ہیں

جہاں سورج کی کرنیں  سرد ہوکے بول اٹھتی ہیں

جہاں تاروں کی کرنیں  کہکشاں سی جگمگاتی ہیں

 

چلو اس اور چلتے ہیں

جہاں پربت کی چوٹی سرنگوں ہوتی سی لگتی ہے

جہاں تاریکیوں میں  چاندنی   خود  رقص کرتی ہے

جہاں باد صبا کی  سرسراہٹ   گدگداتی  ہے

جہاں  برسات   رنگ و نورکی محفل سجاتی ہے

 

چلو اس اور چلتے ہیں

جہاں پہ پیرہن سونے کے اور چاندی کے بندھن ہیں

حسیں قالین، تخت و تاج و ریشم ،اطلس و دیبا

شرابیں پاک، نغمے صاف  اور چمکے  ہوئے من ہیں

سبھی مسرور   وشاداں ہیں سبھی مہکے ہوئے تن ہیں

 

چلو اس اور چلتے ہیں

جہاں پہ سبزہ  ، ڈالی،  ٹہنی  ، پھل اور پھول اپنا ہے

جہاں کانٹا نہیں کوئی،  جہاں   سوکھا نہیں آتا

جہاں رنج والم، مشکل، ستم  ، غم نہیں آتا

جہاں پہ  خوف کے مارے یہ جی  بیٹھا نہیں جاتا

 

چلو اس اور چلتے ہیں

جہاں   چشمے ابلتے ہیں

جہاں اشجار ہر لمحے نئے منظر بدلتے ہیں

جہاں راتیں بھی روشن ہیں جہاں کی محفلیں نوری

جہاں   پہ حسن بے پروا  کے جلوے بھی نکلتے ہیں

 

چلو اس اور چلتے ہیں

چلو اس رب سے ملتے ہیں

جہاں سجدے مچلتے ہیں،جہاں یہ دل پگھلتے ہیں

جہاں  پہ رب کے قدموں میں  جبیں بس جم سی جاتی ہے

جہاں پہ  ساعتیں     مدھم ، خوشی کے  دیپ جلتے ہیں

 

چلواس اور چلتے ہیں

چلو پھر سے سنبھلتے ہیں

چلو  خود کو بدلتے ہیں

چلو بس آج   سب کچھ چھوڑ کے ہم بھی نکلتے ہیں

چلو اس اور چلتے ہیں

 

بن دیکھے شہادت دینا


سوال:
دوسرے کلمے کا مطلب شہادت ہے تو شہادت تو اس چیز کی دی جاتی ہے، جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، تو پھر ہم یہ کیسے شہادت دے رہے ہیں ؟
جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے کہا کہ: ” شہادت تو اس چیز کی دی جاتی ہے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکهی ہو –” ایسا ہر گز نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور فہم و ادراک کی جو قوتیں عطا کیں ہیں ان کے ذریعے سے انسان بہت سی ایسی چیزوں کی حقانیت کا اندازہ کرتا اور ان پر یقین کر لیتا اور اس کے بعد ان کی شہادت بهی دیتا ہے جو اس نے آنکھوں سے نا بهی دیکهی ہوں – مثال کے طور پر دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتیں لیکن انسان اپنی عقل و فہم اور علم کے ذریعے سے دلائل کی روشنی میں انہیں دریافت کر لیتا ہے اور پهر دنیا انہی دلائل کی بنیاد پر ان کی حقانیت کی گواہی دیتی ہے- جراثیم ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے لیکن انہیں دنیا کا ہر شخص حقیقت مانتا ہے کیونکہ اگرچہ یہ ظاہری آنکھ سے نظر نا بهی آئیں انسان ان کے اثرات و دیگر نشانیوں سے انہیں جانچ لیتا ہے –

بالکل اسی طرح کائنات کے عوامل، اس میں ظہور پذیر ہونے والی نشانیاں اللہ تعالیٰ کے وجود اس کے مالک و مختار ہونے اور اس کے نظام کی شہادت دینے پر انسانی عقل کو مجبور کرتی ہیں اور بن دیکهے بهی انسان اس حقانیت کو دریافت کر لیتا ہے- اور اسی لیے اللہ تعالیٰ کو یہ شہادت انسان سے مطلوب بهی ہے-جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کہ اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں جن کی بنیاد پر وہ اللہ اور اس کے پیغمبروں اس کے نظام کو حق جانتے اور اس کی شہادت دیتے ہیں – وحی الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کے حق ہونے کے واضح دلائل ہیں جن کے رد کی انسانی عقل کے پاس کوئی توجیح رہتی ہی نہیں –

چنانچہ ان سب چیزوں کو بن دیکھے بهی مان لینا اور ان کی شہادت دینا انسان پر لازم ہو جاتا ہے- ایسا ہر گز نہیں کہ اللہ کا بنایا ہوا نظام یا اس کا قانون الل ٹپ ہے بلکہ اس نے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے باقاعدہ انتظامات کیے ہیں کہ وہ کسی بھی چیز یا عمل کو عقل کی کسوٹی پر پرکهے بغیر تسلیم نہیں کرتا اور خالق کی طرف سے یہ چیز انسان کے حوالے سے مطلوب بهی نہیں کہ وہ بنا عقل و فہم کے کسی چیز کو تسلیم کر کے بیٹھ جائے اور پهر اس کی شہادت بهی دے بلکہ ان سب چیزوں کی شہادت عقلی دلائل کی بنا پر ہی انسان سے مانگی گئی ہے ضرورت صرف انہیں دریافت کرنے کی ہوا کرتی ہے-
از: ام مریم

لبیک۔ ۔۔۔۔۔۔۔حاضر ہوں

لبیک۔ ۔۔۔۔۔۔۔حاضر ہوں

حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔
میں حاضر ہوں اس اعتراف کے ساتھ کہ تعریف کے قابل توہی ہے۔ تو تنہا اور یکتا ہے، تجھ سا کوئی نہیں ۔ تیرا کرم، تیری شفقت، تیری عطا ، تیری کرم نوازی اور تیری عنایتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ تیری عظمت ناقابل بیان ہے، تیری شان لامتناہی طور پر بلند ہے، تیری قدرت ہر امر پر حاوی ہے، تیرا علم ہر حاضر و غائب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔تجھ سا کوئی نہیں اور کوئی تیری طرح تعریف کے لائق نہیں ۔
میں حاضر ہوں تیرے احسان کے بوجھ کے ساتھ کہ یہ ساری نعمتیں تیری ہی عطا کردہ اور عنایت ہیں۔ میری آنکھوں کی بینائی تیری دین، میرے کانوں کی سماعت تیری عطا، میرے سانسوں کے زیر و بم تیرا کرم، میرے دل کی دھڑکن تیری بخشش، میرے خون کی گردش تیری سخاوت، میرے دہن کا کلام تیرا لطف، میرے قدموں کی جنبش تیراا حسان ہے۔کوئی ان کو بنانے میں تیرا ساجھی، تیرا معاون اور شریک نہیں۔
میں حا ضر ہوں اس عجزکے ساتھ کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ تیری ملکیت ہے، یہ زمین تیری ، آسمان تیرا، سورج ، چاندستارے تیرے، پہاڑ تیرے ، میدان تیرے ، دریا و سمندر تیرے ہیں۔یہ میرا گھر، میرا مال، میری دولت، میرا جسم، میرے اہل و عیال میرے نہیں تیرے ہیں۔ کوئی ان کو بنانے اور عطا کرنےمیں تیر ا شریک نہیں حتیٰ کہ میں بھی نہیں ۔ پس تیرا اختیارہے توجس طرح ہے اپنی ملکیت پرتصرف کرے ۔
میں حاضر ہوں اپنے تمام گناہوں کے بار کےساتھ کہ تو انہیں بخش دے، اپنی تمام خطاؤں کے ساتھ کہ تو انہیں معاف کردے، اپنے تمام بدنما داغوں کے ساتھ کہ تو انہیں دھودے، اپنی تمام ظاہری و باطنی بیماریوں کے ساتھ کہ تو انہیں دور کردے،اپنے من کے کھوٹ کے ساتھ کہ تو اسے دھو دے، اپنی نگاہوں کی گستاخیوں کے ساتھ کہ تو ان سے چشم پوشی کرلے، اپنی کانوں کی گناہ گار سماعت کے ساتھ کہ تو اس کا اثر ختم کردے، اپنے ہاتھوں کی ناجائز جنبش کے ساتھ کہ تو ان سے درگذر کرلے، اپنے قدموں کی گناہ گار چال کے ساتھ کہ تو انہیں اپنی راہ پر ڈال دےاوربدکلامی کرنے والی زبان کے ساتھ کہ تو اس کو اپنی باتوں کے لئے خاص کرلے۔
میں حاضر ہوں شیطان سے لڑنے کے لئے، نفس کےناجائز تقاضوں سے نبٹنے کے لئے، خود کوتیرے سپرد کرنے کے لئے اور اپنا وجود قربان کرنے کے لئے۔پس اے پاک پروردگار! میرا جینا، میرا مرنا، میری نماز، میری قربانی، میرا دماغ ، میرا دل، میرا گوشت، میرا لہو، میرے عضلات اورمیری ہڈیاں غرض میرا پورا وجود اپنے لئے خاص کرلے۔
حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔
از پروفیسر محمد عقیل

قرآن کے کتاب الہیٰ ہونے پر عقلی دلائل


قرآن کے کتاب الہیٰ ہونے پر عقلی دلائل
از: مدیحہ فاطمہ
1. اتنی صدیوں بعد بھی محفوظ ہے ۔ بغیر کسی تغیر و تبدل کے۔
2. قرآن جیسے فصیح و بلیغ کلا م کا ایک امّی ﷺکی زبان سے ظہور بذات خود ایک معجزہ اور ایک بہت بڑی عقلی دلیل ہے۔
3. قرآن نے ساری دنیا کو چیلنج دیا کہ اگر کسی کو اس کے کلام الہی ہونےمیں شبہ ہے تو اس کی مثل بنا لائے۔ لیکن کسی میں بھی باوجود تمام دنیا کی بے پناہ مخالفت کےیہ ہمت نہیں آئی کہ اس کی مثل لے آئے۔
4. قرآن میں بہت سے غیب کی باتیں اور پیشن گویاں ہیں جو ہو بہو ویسے ہی واقعات پیش آئے جیسے کہ قرآن نے بتائے تھے۔
5. قرآن میں موجود سائنسی حقائق ہیں جنہیں آج کے زمانے میں پڑھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کیا یہ کسی انسان کا کلام ہوسکتا ہے؟ نہیں!
6. قرآن میں پچھلی امتوں کی تاریخی حالات کا ایسا صاف ذکر موجود ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے علما یہود و نصارٰی جو اس وقت کتاب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان کو بھی اتنی معلومات نہ تھیں۔ حضرت محمد ﷺ نے تو خود کسی قسم کی علم و تعلیم حاصل نہ کی تھی نہ ہی کبھی کسی کتاب کو ہاتھ لگایا تھا۔ پھر قرآن میں یہ ابد سے لے کر آپ ﷺ کے زمانہ تک کے حالات و واقعات کا قرآن میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناً یہ خبریں آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دی ہوں گی ، جو اس کائینات کا خالق و مالک و مدبّر ہے۔
7. قرآن مجید کی متعدد آیات میں لوگوں کے دل کی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئی اور پھر ان کے اقرار سے ثابت ہوگیا کہ وہ بات صحیح اور سچی تھی۔ یہ کام بھی عالم الغیب والشہادۃ ہی کرسکتا ہے ،کسی بشر سے عادۃ ممکن نہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا
"جب تمہاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ پسپا ہوجائیں۔” (۱۲۲:۳)
يَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ
"وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔” (۵۸:۸)
یہ سب باتیں ایسی ہیں جس کا انہوں نے کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا لیکن قرآن پاک نے اس کو ظاہر کردیا۔ اس کا مشرکین عرب ے بھی اقرار کیا کہ بخدا یہ کسی انسان کاکلام نہیں۔ تبھی وہ کہا کرتے تھے کہ نبیﷺ کے پاس جنات /شیاطین آ کر یہ خبریں دیتے ہیں۔
8. قرآن مجید دنیا کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتاب ہے۔ شاید ہی کسی کتاب کی اشاعت اتنی ہوئی ہو جتنی آج تک قرآن مجید کی ہوئی ہے۔ نہ ہی کسی دوسری قوم یا مذہب کی کتاب کی اتنی اشاعت ہوئی جتنی کہ قرآن مجید کی یہ بھی حفاظت قرآن پاک کی ایک کڑی ہے۔
9. قرآن کو کلام الہی ماننے پر ہر وہ شخص مجبور ہے جس کی عقل وبصیرت کو تعصب وعناد نے بالکل ہی برباد نہ کردیا ہو۔اس دور مادہ پرستی کے مسیحی مصنفین جنہوں نے کچھ بھی قرآن میں غور وفکر سے کام لیا اس اقرار پر مجبور ہوگئے کہ یہ ایک بےمثل وبے نظیر کتاب ہے۔ مسٹر ولیم میورؔ نے اپنی کتاب "حیات محمد ” میں واضح طور پر اس کا اعتراف کیا ہے اور ڈاکٹر شبلی شمیلؔ نے اس پر ایک مستقل مقالہ لکھا ہے۔
10. اتنے مختصر و محدود کلمات میں جتنے علوم و معارف قرآن مجید میں پائے جاتے ہیں کسی کتاب میں نہیں پائے جاسکتے۔ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی: عائلی زندگی سے لے کر قبائلی اور شہری زندگی تک اور پھر عمرانیات واجتماعیات اور سیاستِ ممالک کے متعلق نظام پیش کرتا ہے۔پھر صرف نظام پیش کرنا ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اس کا رواج پانا اور تمام نظامہائے دنیا پر غالب آکر قوموں کے مزاج ، اخلاق ، اعمال ، معاشرت اور تمدن میں وہ انقلاب عظیم پیدا کرتا ہے جس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی

لیکچر: ذکرالہٰی


لیکچر: ذکرالہٰی
از پروفیسر محمد عقیل