جلنے والا فرش

اکٹر محمد عقیل

کسی بستی میں ایک بہت امیر شخص رہتا تھا۔ یوں تو اس کے پاس سب کچھ تھا  لیکن اس کی دلچسپی زندگی سے ختم ہوتی جارہی تھی۔ اسے نہ بھوک لگتی تھی اور نہ ہی  صحیح طرح نیند آتی تھی۔ بس ہر وقت ایک پژمردگی، سستی اور کاہلی کی سی کیفیت رہتی۔ کئی حکیموں کا علاج کروالیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایک دن کسی دور دراز علاقے میں کسی نے ایک ماہر حکیم کا پتا بتایا۔ حکیم نے علاج کرنے پر آمادگی ظاہر کرلی لیکن شرط رکھی  کہ میرے طریقہ علاج پر تم کوئی اعتراض نہیں کروگے ۔ وہ مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق تیار ہوگیا۔

حکیم نے کہا کہ صبح ایک مقام پر چلنا ہے لیکن تم اکیلے چلوگے اور کوئی ساتھ نہ ہوگا۔ صبح وہ روانہ ہوئے اور حکیم اسے ایک دورکسی سنسان جگہ پر لے آیا۔ وہاں ایک چھوٹا سا کمرہ بنا تھا اور کچھ بھی نہ تھا۔ حکیم نے اس سے اندر داخل ہونے کا کہا۔ جونہی وہ شخص اندر داخل ہوا، حکیم نے باہر سے کنڈی لگا کر کمرہ بند کردیا۔ وہ شخص گھبرایا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیر جل رہے ہیں۔ اس نے کمرے کے چاروں طرف بھاگنا شروع کردیا تاکہ کوئی ٹھنڈی جگہ مل جائے لیکن وہ ناکام رہا۔ بس وہ پیروں کو جلنے سے بچانے کے لیے اچھل کود کرنے لگا۔ کافی دیر تک وہ یونہی اچھلتا اور شور مچاتا رہا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا ۔ یہاں تک کہ نیم  بے ہوش ہوکر گر گیا۔

جب آنکھ کھلی تو خود اپنے گھر  میں موجود پایا۔ اس نے فورا حکم دیا کہ اس ناہنجار حکیم کو تلاش کیا جائے۔ ہرکارے  اسے لانے کے لیے  نکل گئے۔ اچانک اس شخص کو محسوس ہوا کہ خلاف معمول اسے بھوک لگ رہی ہے۔ اس نے  مدتوں بعد جی بھر کر کھانا کھایا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے محسوس کیا کہ اس کے جسم میں ایک چستی آگئی ہے اور دل میں ایک خوشی کی لہر ہے۔ وہ اپنے پیروں کی تکلیف بھول گیا اور حکیم کو سزا دینے کی بجائے انعام دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ حکیم کا طریقہ علاج سمجھ چکا تھا۔

یہ کہانی آپ سب نے شاید بچپن میں پڑھی ہوگی لیکن اس سائیبر ایج میں ہم سب اسی کہانی کا  مرکزی کردار بنتے جارہے ہیں۔ ہماری فزیکل ایکٹوٹی کم و بیش ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جسمانی نظام کی درستگی پندرہ بیس منٹ کی ورزش یا واک کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ واک ہمیں دل، شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں سے بچاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جسمانی ایکسرسائز سے کئی ہارمون خارج ہوتے ہیں جو ہمارے موڈ کو بہتر بناتےاور جینے کی امنگ اور خوشی پیدا کرتے ہیں۔

ہم یہ سب جاننے کے باوجود نہیں مانتے۔ پھر انجام یہ کہ نیچر کا قانون حرکت میں آتا ہے جو ہمیں بیماریوں  کے جلتے ہوئے فرش پر لاکھڑا کرتا ہے۔ اس فرش پر تکلیف کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور لیبارٹریوں کا چکر لگانا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ وہی چکر تھے جو وہ  واک کی شکل میں کرلیتا تو آج اس طواف سے محفوظ رہتا۔

پس  عقلمند وہی ہے جو خود  کو سدھا ر لے اس سے پہلے کہ نیچر اسے جلنے والے فرش پر کھڑا کردے اور وہ حسرت کی تصویر بن جائے۔  

سانپ خدا کے حکم سے کاٹتا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ سولہ قبل  کی ایک  سرد رات تھی اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ  نورانی شاہ کے پہاڑوں میں  ایڈوینچر پر تھا۔انسانی مزاروں سے تو دلچسپی نہ تھی البتہ  خدائی پہاڑوں سے ضرور تھی۔ رات کافی سناٹا تھا اور ارد گرد کے پہاڑ دیو ہیکل جن کی مانند لگ رہے تھے۔ سونے  سے قبل ایک مقامی بلوچ سے بات چیت ہورہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کیا یہاں سانپ ہوتے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہاں ہوتے ہیں لیکن وہ خدا کے حکم سے ہی کاٹتے ہیں۔

وہ یہ بات کہہ کر چپ ہوگیا اور میں گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ایک لحاظ سے اس کی بات درست تھی۔ خدا کا حکم کیا ہے؟ کیا ہر مرتبہ جب سانپ کاٹنے کا ارادہ کرتا ہے تو خدابراہ راست متوجہ ہوتا اور سانپ کو کاٹنے  کی اجازت دیتا یا حکم  دیتا  ہے ؟وہ کن بنیادوں  پر اجازت دیتا اور جب منع کردیتا ہے؟

سانپ کی ایک نیچر ہے جو مخصوص قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔ سانپ اسی وقت کاٹتا ہے جب اسے کوئی  خطرہ محسوس ہو یا غذا کی ضرورت ہو۔اب جو کوئی بھی سانپ کے مقابلے میں حفاظتی تدبیر اختیار نہ کرے تو تو  یہ نیچر کے احتیاط کے  ضابطے کی خلاف ورزی ہے  ۔اب جو انسان یا کوئی اور ان قوانین کے تحت سانپ کے نرغے میں آگیا اور خود کو بچا نہ پایا تو سانپ ظاہر ہے اسے ڈس لے گا۔

گویا خدا کے حکم  سے وہ قوانین  ، ضوابط، اصول اور قاعدے تخلیق ہوئے جس کے ذریعے سانپ کے ڈسنے کا واقعہ یا کوئی بھی واقعہ جنم لیتا ہے۔یہاں خدا نے سانپ کو کاٹنے کا حکم براہ راست  نہیں دیا بلکہ سانپ کو کچھ قوانین کے تحت تخلیق کیا اور ان سے بچنے کے لیے حفاظت کے  ضابطے بھی بنادیے۔ اب جس نے ان ضابطوں کی خلاف ورزی کی اور سانپ نے اسے کاٹ لیا تو اسے کہا جائے گا کہ یہ خدا کی  اس اجازت سے ہوا جو اس نے اپنے  نیچر کے قانون کو دے رکھی ہے۔ گویا یہ سارا کام خود بخود نیچر کے قوانین کے تحت ہورہا ہے اور خدا بار سانپ کو حکم نہیں دیتا کہ فلاں کو کاٹو اور فلاں کو نہیں کاٹو۔دنیا میں ہر کام خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ہر کام خدا کے بنائے ہوئے قانون کے تحت ہوتا ہے ۔البتہ چونکہ خدا ان قوانین کا خالق ہے اور اس کائنات کا چیف ایگزیکٹو ہے اس لیے جب چاہے ان  مرئی قوانین سے بالاتر ہوکر کسی اور غیر مرئی قانون کے تحت معاملہ کرسکتا ہے لیکن بالعموم وہ ایسا نہیں کرتا۔

اس موقع پر یہ جاننا ضروری ہے کہ اس قانون میں  چند مستثنی معاملات بھی شامل ہیں۔   جب کسی کے لئے اللہ کی اسکیم کے مطابق کوئی واقعہ پیش آنا ضروری ہو تو ، نظام الٰہی سانپ کو کسی شخص کو کاٹنے پر مجبور کرسکتا ہے یا اسے کاٹنے سے بچا سکتا  ہے۔گویا  کہ یہ معاملہ اس نظام کے عمومی قانون میں مداخلت کرکے کسی مخصوص سمت میں لے جانے کا ہے اور قانون الٰہی میں استثنی ٰ بھی قانون ہی کا حصہ ہے۔ 

ڈاکٹر محمد عقیل

اللھم لک الحمد

اللهم لك الحمد. أنت نور السماوات والأرض. ولك الحمد. أنت قيّام السماوات والأرض. ولك الحمد. أنت رب السماوات والأرض. ومن فيهن. أنت الحق. ووعدك الحق. وقولك الحق. ولقاؤك حق. والجنة حق. والنار حق. والساعة حق. اللهم لك أسلمت. وبك آمنت. وعليك توكلت. وإليك أنبت. وبك خاصمت. وإليك حاكمت. فاغفر لي. ما قدمت وأخرت. وأسررت وأعلنت. أنت إلهي لا إله إلا أنت

ترجمہ :اے خدا تعریف تیرے ہی لیے ہے کیونکہ تو ہی تو زمین اور آسمان کا اجالا ہے. تو ہی تو زمین اور آسمانوں کو قائم کرنے والا ہے، تعریف تیرے ہی لیے ہے کہ تو ہی آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے. توہی حق ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری بات سچی ہے، تجھ سے ملنا حقیقت ہے، جنت و جہنم حق ہےقیامت یقینی ہے. پس اے رب میں نے تیری مرضی کے آگے سر تسلیم خم کیا، تجھ کو دل سے مان لیا، ہر مشکل میں تجھ پر بھروسہ کیا، ہر خطا پر تجھ ہی سے رجوع کیا، صرف تیرے ہی لیے دشمنی کی، تجھے ہی اپنا حاکم بنایا. پس میرے خطاؤں کی پردہ پوشی کردے جو میں نے پہلے کیں یا بعد میں، جو چھپ کر کیں یا اعلانیہ. کیونکہ توہی تو میرا معبود ہے اور تیرے سوا دوسرا معبود کہاں

حروف مقطعات

نیشنل ایجوکیشن پالیسی

پاکستان میں نیشنل ایجوکیشن پالیسی کی عدم موجودگی نے ایک ایسی نسل کو جنم دیاہے جو بحیثیت مجموعی قومی سطح پر ہونے والی معاشی ترقی کے درست مفہوم سے نابلد ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شناخت کے بحران یعنی آئینڈنٹٹی کرائسس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے کے اخلاقی اقدار میں بار بار تغیر و تبدیلی ہوتی رہی۔ اخلاقی اقدار کے تغیر نے جرائم اور بدعنوانی کو جنم دیا تاکہ لوگ اجتماعی مفاد کو چھوڑ کر محض اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرسکیں ۔اس لا علمی اور عدم حب الوطنی کے بے ہنگم گٹھ جوڑ نے معاشی نظام کی ایک ایسی کھچڑی تیار کی ہے جس سے ہر وہ شخص استفادہ کرسکتا ہے جو اس کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ البتہ ، عوام کی اکثریت معاش کے اس نظام کو سمجھنے سے قاصر ہے اور اسی بنا پر یہ اکثریت بڑے بڑے شکروں کے پنجوں میں پھنس جاتی ہے جو ظلم و زیادتی کے ذریعے عوام کی جیبوں سے پیسے بٹورنا خوب جانتے ہیں۔اس ظلم و استحصال پر مبنی معاشی نظام کو ڈھادینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام الناس مجموعی طور پر معیشت کو غلط طور پر محض مالی فوائد تک محدود سمجھتے ہیں ۔انہیں اس حقیقت کا علم ہی نہیں کہ معیشت اشیاء و خدمات کے تبادلے کا نام ہے جس کا نتیجہ معاشرے کی فلاح و بہبود کی صورت میں نکلتا ہے اور حقیقت میں معیشت کا مالی پہلو محض ایک بائی پراڈکٹ ہے۔کامران نثار۔

ذوالجلال والاکرام

قرآن مجید میں دو بار خدا کا ذکر کرنے والا سب سے پراسرار اور معجزانہ نام ذوالجلال والاکرام ہے۔ یہ خوبی ، جیسا کہ اللہ کے لئے بیان کیا گیا ہے ، کسی بھی باشعور انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ یہ صرف خدا کی ایک خصوصی صفت ہے۔اس وصف کے مطابق؛ اللہ پاک اپنی رحمت اور فلاح کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ بیک وقت انسان کے لئے عذاب اور خدائی قہر کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی مثال سمجھنے کے لئے ، جب انسان شدید غصے اور غم و غصے کی حالت میں ہوتا ہے ، تو وہ جذباتی طور پر انتہا پسند ہوجاتا ہے اور جب تک کہ اس کا غصہ ختم نہیں ہوتا , اس وقت تک شفقت اور رحم کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ، جب کوئی بہت خوش ہوتا ہے تو ، وہ بہت سے لوگوں کو معاف کر سکتا ہے اور بھول سکتا ہے وہ معاملات جو اسے انتہائی ناراض کرسکتے ہیں۔ کسی کے لئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ کبھی بھی توازن برقرار رکھے اور انتہائی غصے یا خوشی کے جذبات میں مبتلا نہ ہو۔ عقلمند لوگ ہمیشہ صلاح دیتے ہیں کہ جب کوئی شدید غصے یا خوشی کی حالت میں ہو تو کوئی بھی فیصلہ نہ کرے۔جب بات خدا کے فیصلوں پر آتی ہے تو یہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ کسی دوران ، اللہ کا ایک پیارا شخص اس سے دعائیں اور شکایات کرتا ہے ، اور خدا اس کی مہربانی سے سنتا ہے اور اس کی دعاوں کا جواب دیتا ہے۔ اور بیک وقت کہیں ایک شخص اس طرح سے کام کرتا ہے جو اللہ کے قہر کو پکارتا ہے اور خدا اسے سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔اس صفت الہی کے ذریعہ دکھایا گیا حیرت انگیز توازن؛ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جذبات میں کمال صرف اور صرف اللہ ہی کا ہے اور خدا ان طریقوں سے عمل یا فیصلہ نہیں کرتا جیسے انسان۔ جب ان کے موڈ خراب ہوں یا جذبات کے مطابق پرجوش ہوں۔کامران نثار

ملک الملک۔ رب العالمین

اللہ کے یہ دو عظیم القابات اکثر خدا کی صفات کے طور پر سمجھے جاتے ہیں۔ در حقیقت قرآن میں یہ "القاب” ہیں جس کے ساتھ خدا کی اعلیٰ عظمت اور کائنات کی حکمرانی کو دکھایا گیا ہے۔ ایک لقب اور ایک وصف کے مابین بڑا فرق ہے۔ ایک وصف اس کیفیت یا کردار کو ظاہر کرتا ہے ، جو اللہ میں موجود ہے۔ جبکہ ، ایک لقب خدا کے کچھ اہم اور قابل ذکر پہلو کو ظاہر کرنے کے لئے کئی خدائی صفات کے مرکب کی نشاندہی کرتا ہے۔ملک الملکاللہ کا یہ لقب ، قرآن مجید کی ایک مشہور آیت میں ملک الملک کے نام سے مکمل طور پر صرف ایک بار ظاہر ہوا ہے۔ باب 3 ، آیت 26 میں۔ { کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔}۔ جیسا کہ آیت میں بالکل واضح ہے ، اللہ کے اس لقب کے مطابق ، حقیقی خودمختاری ، طاقت ، اختیار اور قانون سازی کا حق؛ آخر کار صرف اللہ کا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ لقب نظر آنے والی کائنات کے تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ قرآن میں لفظ "مالِک” کا مطلب بادشاہی ہے اور قرآن مجید میں ہر طرح سے یہ ہماری مادی اور ظاہری دنیا کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔ خدا کا یہ لقب ہمیں یقین کرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی کتنا طاقتور دکھائی دے سکتا ہے یا کوئی کس طرح معزز ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اصل حکومت ,طاقت اور عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور۔ تمام تقدیر خدا کے فیصلوں پر منحصر ہے۔رب العالمین؛خدا کے اس لقب کا 200 سے زیادہ آیات میں قرآن مجید میں تذکرہ ہے۔ اللہ کے اس لقب کے مطابق ، ہماری دنیا اور دیگر تمام جہانوں پر حکومت اور ان کی پرورش کی اولین ذمہ داری صرف اللہ ہی کی ہے۔ اس لقب کے ذریعہ ، ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک ہی خدا اس دنیا پر اور تمام جہانوں پر حکومت کر رہا ہے خواہ ہم ان کے بارے میں جانتے ہو یا نہیں۔ جب کوئی واقعتا خدا کے اس لقب کو سمجھتا ہے تو ، اس سے دل و دماغ کا ایمان اور سکون بڑھ جاتا ہے کہ ہماری ذمہ داری صرف خدا کی اطاعت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ اللہ کی طرف سے ہمیں رزق اور امداد مہیا کی جائے گی چاہے ہمارے لئے حالات کتنے بھی مخالف یا غیر یقینی ہوں۔اللہ کے ان دو القابات کی عظمت سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کا ہماری مادی دنیا اور زندگی پر مکمل حکم اور اختیار ہے۔ تاہم ، اس کی خصوصی مدد مشروط ہے اور صرف ان لوگوں کو فراہم کی جاتی ہے جو اس پر اٹل یقین رکھتے ہیں اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔کامران نثار

الغنی – المغنی – الحمید

غنی ، مغنی ​​اور حمید کی خدائی صفات زیادہ تر لوگوں کو صرف دولت کے تناظر میں غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ خدائی صفات کا یہ مجموعہ قرآن پاک میں تقریبا 23 مرتبہ دہرایا گیا ہے اور اس کا ایک بہت وسیع تصور ہے۔الغنی؛یہ خدا کی سب سے بڑی اور اہم صفت ہے جس سے آگاہ ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے وجود یا کاموں کے لئے کسی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ بے نیاز ہے اور خود ہی تمام وسائل کا سرچشمہ ہے۔ انسان جو بھی وسائل سوچ سکتا ہے یا اس کی ضرورت ہے, یہ سب اللہ کی ملکیت میں ہیں بغیر کسی حد اور قلت کے ہیں۔المغنی؛یہ ایک فعال وصف ہے جس کے ذریعہ اللہ ایک ذریعہ تخلیق کرتا ہے کہ وہ مخلوق کو ان کے وجود اور رزق کے لئے وسائل مہیا کرے۔ اللہ ، الغنی ہونے کے ناطے ، اپنے علم و حکمت کے مطابق وسائل کو کثرت یا حدود میں مہیا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔الحمید؛یہ وصف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ بے نیاز منفی معنی میں نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی پرواہ نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ خود , خود کفیل ہے اور کسی پر انحصار سے پاک ہے۔ ہم اکثر یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب لوگوں کو اپنی ضروریات کے لئے خاطر خواہ وسائل مل جاتے ہیں تو وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور انتہائی متکبرانہ انداز میں کام کرتے ہیں اور زیادہ تر دوسروں کو رسوا کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کے برخلاف ، اللہ تمام وسائل ، کثرت ، دولت اور عظمت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود؛ لوگوں کے ساتھ انتہائی شفیق انداز میں معاملہ کرتا ہے ، اور انھیں اپنے وجود ، رزق اور ترقی کے لئے جو بھی ضرورت ہو اسے فراہم کرتا ہے۔ بے نیاز ہونے کے باوجود انتہائی مہربان ہونے کا یہ فعل اس کو الحمید بنا دیتا ہے جس کا مطلب ہے وہ واحد اور تنہا جو قابل ستائش ہے۔

القدوس۔ البر۔ ال سبحان

یہ صفات الہی ، خدا کے کاموں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اکثر مترادفات میں بولی جاتی ہیں۔ یہ مخصوص ہیں اور خدائی عمل کے بہت ہی مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتی ہیں:القدوسیہ ایک بڑی صفت الہی ہے ، جو بے عیب ، پاکیزگی اور تعظیم سے متعلق ہے۔ اس صفت کے مطابق ، اللہ اپنے فیصلوں میں بالکل بے عیب ہے اور کبھی بھی کسی ناپاک فکر یا عمل کی حمایت یا مدد نہیں کرتا ہے۔ کامل احترام ، عزت اور وقار اس کی ملکیت ہے ، کیوں کہ وہ ,وہ ہے جو مکمل طور پر بے عیب ہے۔البراس وصف کی وضاحت ہے کہ ، جب اللہ کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرتا ہے تو ، یہ فیصلہ ہمیشہ اس کی مخلوق کے مفاد میں ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرتا جو کسی بھی انفرادی زندگی یا اجتماعی زندگی کی فلاح و بہبود اور مفاد کے خلاف ہو۔ال سبحانیہ وصف اعلانیہ حیثیت کا ہے۔ اس وصف سے یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ جھوٹ یا ظلم پر مشتمل کوئی بھی چیز خود خدا کی ذات یا خدا کے اعمال سے منسوب نہیں کی جاسکتی ہے۔ مزید یہ کہ ، یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی طرح کی اچھائی صرف اس وجہ سے ظاہر ہوسکتی ہے کہ خدا ، قدوس اور بر ہے۔کامران نثار

پاکستان کا تعلیمی سانحہ

پاکستان 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے ہی ایک سنگین تعلیمی بحران کا شکار ہے۔ وفاقی یا صوبائی سطح کی کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کی شدت کو کبھی نہیں سمجھا اور ریاست ہمیشہ ایک ورکنگ قومی تعلیمی پالیسی سے محروم رہی۔ اس ڈومین کی موجودہ صورتحال اگرچہ پہلے سے بہتر ہے لیکن اسے اس سمت کی ضرورت ہے کہ ریاست اپنے تعلیمی نظام میں مساوات لانے ، تحقیق اور ترقی کے شعبوں میں بہتری لانے کے لئے کس طرح کے ترقیاتی وژن پر عمل کرے گی۔ بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے تناسب کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی دھارے کے نصاب میں پیشہ ور اور تکنیکی مضامین کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔کامران نثار

%d bloggers like this: