ایم ٹی جے(مولانا طارق جمیل )برانڈ پر کو اس وقت کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ ایک ازار بند فیس بکی مارکیٹ میں گردش کررہا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے ہے۔ اس پر ایم ٹی جےکو سخت مخالفت کا سامنا ہے کہ برانڈ کے نام پر وہ بھی دیگر تاجروں کی طرح عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب مولاناکا حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ایم جی ٹی یعنی مولانا طارق جمیل کے برانڈ کی نہیں بلکہ جے ڈاٹ کی ہے۔ ایک جانب مولانا سے مخالفین ہیں جو ہر صورت مولانا پر شدید تنقید کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب ان حامی لوگ ہیں جو ہر صورت مولانا کی جائز ناجائز بات کا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نیوٹرل لوگ ہیں اور اس شدید کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیا رائے اختیار کی جائے؟ آئیے مختصر اا س کنفیوژن کو دور کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ مولانا نے جس نیت سے ایم ٹی جے کے برانڈ پر مبنی بزنس کھولا ہے وہ ان کے بقول یہ ہے کہ وہ مدارس اور دینی درسگاہوں کو چندے اور زکوٰۃ کے پیسے پر انحصار کرنے کی بجائے خود انحصاری کا راستہ دکھانا چاہتے ہیں اور اس رقم کو مدارس کے نظام کو سپورٹ کرنے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ اگرمدرسے کے فارغ التحصیل طلبا دنیا کو امامت ، اور موذن کی خدمات دینے کے علاوہ دیگر کاروبار اور خدمات میں بھی خود کو پیش کریں تو یہ اپنے عمل سے جواچھے اخلاق تبلیغ کرسکتے ہیں وہ محض تقریروں سے ممکن نہیں۔ نیز وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر دنیا کے طعنوں کا بھی جواب دے سکتے اور روایتی مذہبی اداروں کی ساکھ بحال کرسکتے ہیں۔ ۔
دوسری بات یہ کہ مولانا پر یہ الزا م ہے کہ آ پ اپنے درسوں میں ایک خاص حلیے کو فحاشی سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد چست پینٹ شرٹ، جینز، کالر والی شرٹ ، خواتین کے ٹخنوں سے اونچے ٹراوزر، مختصر دوپٹے، چست لباس یا کسی بھی ایسے ملبوسات کو ان آوٹ لیٹس پر بیچنا قول اور فعل کا تضاد ہوسکتا ہے جو خود انہوں نے اپنے دروس میں براہ راست یا بالواسطہ ناجائز قرار دییے ہوں۔ اس لیے اس بارے میں احتیاط کی جائے۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے چند مخصوص ڈریس بیچنے سے کاروبار کس طرح چلے گا تو اوپر بیان کی ہوئی بات یاد رکھنی چاہیے کہ مولانا کی نیت کاروبار کی نہیں بلکہ دین کی خدمت کی ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو اس قسم کے کسی بھی ڈریس یا پراڈکٹ بیچنے سے گریز کرنا ہوگا جو ان کی دانست میں غیر شرعی ہے۔ اس طرح وہ اپنے فالورز کو بھی ایک اچھی راہ دکھا ئیں گے۔
تیسر ا اعتراض ان کے برانڈ اور قیمتوں پر کیا جارہا ہے کہ تمام عمر وہ سادگی کی تعلیم دیتے رہے اور اب قوم کو اسراف کی جانب لے کر جارہے ہیں۔ مجھے علم نہیں ان کی پراڈکٹس کی کیا قیمت ہے لیکن ان کے شاگرد رشید کا برانڈ جے ڈاٹ مہنگے کپڑے بیچنے میں ید طولیٰ رکھتا ہےاور مولانا نے کبھی اپنے شاگرد کو اس با ت پر ٹوکا تک نہیں۔ اس سے ایک عام آدمی کو یہ تاثر جاتا ہے کہ اسراف کی باتیں شاید درس تک ہی محدود ہیں اور عملی زندگی میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن یہاں قصور اسراف کے تصور کو نہ سمجھنے کا ہے۔ خرچ کرنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ ضروریات پر خرچ کیا جائے جو فرض ہے، دوسرا یہ کہ سہولیات کے حصول کے لیے خرچ کیا جائے جو جائز ہے اور تیسرا یہ کہ تعشیات کے حصو ل پر خرچ کیا جائے جو بعض صورتوں میں حرام ہے بالخصوص اس وقت جب لوگ بھوکے مررہے ہیں۔ ایم ٹی جے کا کسی پراڈکٹ کو عام کاروباری اداروں کی طرح ایک خاص حد سے زیادہ قیمت پر بیچنا اور اس کی تشہیر کرنا ان کے اپنے قول و فعل کے تضاد کی جانب نشاندہی کرسکتا ہے جس میں وہ سادگی کی تعلیم دیتے اور اسراف کی مخالفت کرتے ہیں۔
اس موقع پر بعض حضرات یہ کہتے ہیں پاکستانی سوسائٹی میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ اگر مولانا کی نیت کو دوبارہ دیکھا جائے تو وہ تو اپنے فالوورز اور دینی طبقے کے لیے ایک ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ ایم ٹی جے کو چاہیے تھا کہ جس طرح مولانا نے خطابت میں ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا، اسی طرح کاروبار میں بھی سادگی پر مبنی ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہیے تھا۔ نیز اکنامکس کے قانون کے تحت اگر تعیشات کی چیزوں کی قیمت کم ہوگی تو اس سے اتنی ہی ڈیمانڈ پیدا ہوگی اور منافع بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ اسی اصول کو مغرب میں آزمایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں منافع کا حصول محض قیمت میں اضافہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ وہ لو گ جنہیں کسی عالم دین کا بزنس میں ملوث ہونا غلط معلوم ہورہا ہے ، وہ غلط ہیں۔ ایک عالم دین اگردنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھے اور ملازمت اور بزنس کرتے ہوئے دین کا کام کرے تو وہ معاشرے کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔یعنی وہ یہ بات علمی طور پر جان سکتا ہے کہ تاجر کیوں ناجائز منافع خوری کی طرف راغب ہوتا ہے، مڈل مین کس طرح قیمت بڑھادیتا ہے، سرکاری ادارے کسی طرح کاروبار میں روڑے اٹکاتے ہیں، ٹیکس چوری کیوں ہوتی ہے ، ملاوٹ کے کیا اسباب ہی، نورکری کے دوران کام چوری سے کس طرح بچا جاسکتا ہےوغیرہ۔ جب وہ ان مسائل کو قریب سے دیکھ کر دین کو پڑھے گا تو اجتہاد کے وہ نئے دروازے کھلیں گے جو لوگوں کی زندگیوں کے مسائل حل کریں گے اور فتوے کتابوں کی دنیا سے نکل کر عملی زندگی میں آجائیں گے۔ امام ابو حنیفہ کے سب سے زیادہ مقبول فیقہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ ایک تاجر تھے اور زندگی کے مسائل قریب سے جانتے تھے۔
آخری بات، مولانا کے مخالفین سے گذارش ہے کہ ازار بند والی بات پر بلاتحقیق پھبتی کسنا ، جگتیں مارنا ایک مسلمان کو زیبا نہیں دیتا۔ "مسلمان ” پر زور دیتے ہوئے جملہ دوبارہ پڑھ لیں کہ ایک "مسلمان” کو زیبا نہیں دیتا اور رمضان میں تو بالکل نہیں۔ہاں اچھے اسلوب میں تنقید میں کوئی حرج نہیں۔ دوسری جانب مولاناکے چاہنے والوں سے گذارش ہےہمیں حق کی بات کرنی چاہیے خواہ یہ ہماری کسی محبوب شخصیت ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔
ڈاکٹر محمد عقیل