Archive for the ‘ادبی مضامین’ Category

کیا تو ایسے شخص کو دنیا میں بھیجے گا جو قتل و غارت گری کرے گا؟

ڈاکٹر محمد عقیل
” میں زمین میں ایک بااقتدار مخلوق بھیجنے والا ہو ں۔ تم سب اس کے آگے جھکے رہنا اور اس کے ارادہ و اختیار میں بے جا مداخلت مت کرنا”۔ خدا نے فرشتوں سے کہا۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

علم – شیطان کا ایک ہتھیار


علم – شیطان کا ایک ہتھیار
ڈاکٹر محمد عقیل
” حضرت! میں بہت زیادہ علم حاصل کرنا چاہتا ہوں، بہت زیادہ” میں نے کہا۔
"تو حاصل کرلو، کس نے روکا ہے؟” حضرت نے جواب دیا
"جناب مسئلہ یہ ہے کہ علم بعض اوقات تکبر پیدا کرتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہیں وہی سب کچھ نہ ہو جو شیطان کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنے علم کے زعم میں خدا کے کو پڑھنا جاری رکھیں

عمل صالح کا محدود تصور


عمل صالح کا محدود تصور
پروفیسر محمد عقیل
ہم جانتے ہیں کہ انسان کی نجات دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایمان اور عمل صالح یا نیک اعمال۔ ایمان کا معاملہ تو بہت حد تک واضح ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمل صالح سے کیا مراد ہے؟کیا اس سے مراد صرف نماز روزہ حج زکوٰۃ ہے ؟ کیا یہ تصور صرف دینی اعمال تک محدود ہے ؟ کیا اس میں دنیا کے حوالے سے کی گئی کوئی اچھائی شامل نہیں ہوسکتی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کے جدید ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ سائنسدانوں نے انسان کے لیے میڈیکل، ایجوکیشن، کمیونکیشن غرض ہر میدا ن میں بے شمار سہولیات پیدا کردیں لیکن مذہبی طبقہ اسے عمل صالح ماننے کو تیار نہیں۔
مذہبی طبقہ مدرسے میں پڑھنے کو تو نیکی مانتا ہے لیکن دنیاوی علوم پڑھنے کو نیک عمل تصور نہیں کرتا۔ وہ مسجد کی تعمیر کو تو صدقہ جاریہ کہتا ہے لیکن ہسپتال یا اسکول کی تعمیر کو صدقہ کہنے سے کتراتا ہے۔ وہ تسبیحات کو دس ہزار مرتبہ پڑھنے کو تو باعث اجرو ثواب کہتا ہے لیکن اچھی بات کرنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ دوسری جانب ہم دیکھیں تو ہماری روزمرہ زندگی کے محض چند گھنٹے ہی عبادات اور دینی امور میں گذرتی ہے۔ ہماری زندگی کے اکثر لمحات دنیاوی معاملات میں گذرتے ہیں۔
گذشتہ مضمون میں ہم نے بات کی تھی کہ نیکی سے مراد ہر وہ عمل ہے جو خدا کی بیان کردہ حلا ل و حرام کی حدود قیود میں رہتے ہوئے خلوص نیت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد کسی بھی مخلوق کو جائز طور پر فائدہ پہنچانا ہو۔ اس تعریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی عمل کے نیک ہونے کے لیے لازمی نہیں کہ اس کا تعلق دین سے ہو۔ کوئی بھی دنیاوی عمل جو اس تعریف پر پورا اترے وہ نیکی ہے اور اسی طرح اللہ کے ہاں مقبول ہے جیسے کوئی بھی دینی عمل۔
دوسری جانب جب ہم قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں تو نیک اعمال صرف دین ہی نہیں دنیاوی امور سے متعلق بھی ہیں۔ جیسے سورہ البقرہ میں نیکی کے بارے میں یہ بیان ہوا کہ نیکی محض مشرق و مغرب کی جانب منہ کرلینے کا نام نہیں بلکہ نیکی میں ایمان لانے کا عمل بھی شامل ہے، اس میں معاشرے کے مختلف مستحقین کو صدقہ دینا بھی شامل ہے ، نماز اور زکوٰۃ کی عبادات بھی ہیں اور مختلف مواقع پر صبر کرنا بھی شامل ہے۔ یعنی نیکی کا دائرہ کار صرف دینی امور ہی نہیں بلکہ دنیوی معاملات تک وسیع ہے۔ اسی طرح ہم احادیث کو دیکھیں تو وہاں تو روزی کمانا، گناہ سے خود کو روکنا، کسی کو سواری پر چڑھنے میں مدد کردینا حتی کہ کتے کو پانی پلانے تک کو نیکی کہا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر و ہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے دنیا وی کاموں کو خدا کے نزدیک ناقابل قبول بنانے کی کوشش کی۔ ذیل میں ہم ان اعمال کا جائزہ لے رہے ہیں:
۱۔عمل صالح کی فہرست مرتب کرنا
اس میں سب سے پہلا محرک تو ظاہر ی متن بنا۔ یعنی جن باتوں کا ذکر قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ آگیا اسے تو نیکی قراردیا گیا لیکن جن کا ذکر نہیں آیا انہیں نیکی نہیں مانا گیا۔ مثال کے طور پرکسی بھوکے کو کھانا کھلانے کا عمل قرآن میں نیکی کے طور پر بیان ہوا ہے تو اسے تمام مذہبی طبقات نیکی مانتے ہیں۔ لیکن کسی بچے کی اسکول فیس ادا کرنے کو اس درجے میں نیکی نہ مانا جاتا ہے اور نہ اسے بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بھوکے کو کھانا کھلانا تو ایک وقت کا کام ہے لیکن اسکول یا کالج میں بچے کو پڑھا کر اسے مچھلی پکڑنے کا کانٹا دیا جارہا ہے جس کی مدد سے وہ مستقبل میں ہزاروں مرتبہ کھانا کھاسکتا ہے۔یعنی یہاں نیکی کا تعین کرتے ہوئے استقرائی یعنی Inductive اپروچ سے کام نہین لیا گیا۔اگر لیا جاتا تو سارے اچھے کام اس میں آجاتے۔
۲۔ دنیا سے نفرت
دنیاوی امو ر کو نیکی یا عمل صالح میں شمار نہ کرنے کا ایک اور سبب دنیا سے نفرت ہے۔ ہمارے مذہب پر کچھ صدیوں بعد ہی تصوف کی ترک دنیا کی تعلیمات کا غلبہ ہوگیا۔ چنانچہ دنیا کو حقیر کو اس کے عمل کو شیطانی عمل سمجھا جانے لگا۔ اس کی وجہ سے روزی کمانا، میعار زندگی بلند کرنا، دنیاوی ہنر یا تعلیم حاصل کرنا، مفاد عامہ کے لیے فلاحی کام جیسے سڑک بنوانا، پناہ گاہیں تعمیر کرنا وغیرہ کو عمل صالح میں شمار کرنے سے انکار نہیں تو پہلو تہی ضرور کی گئی۔ حالانکہ دین میں اصل تقسیم دنیا و دین کی نہیں دنیا و آخرت کی ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو صدقہ جاریہ میں کنواں کھدوانا حدیث میں صراحتا عمل صالح بیان ہوا ہے ۔ اس بنیاد پر سارے وہ کام جو عوام کے فائدے کے ہوں اور نیکی کی مندرجہ بالا تعریف پر اترتے ہوں وہ عمل صالح میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ایک شخص اگر اپنی فلاح کا کوئی کام کررہا ہے اور وہ دین کے دائرے میں ہے تو وہ بھی نیکی ہے۔ اس اصول کے تحت روزی کمانا، بچوں کی تربیت، سب کچھ آجاتا ہے۔
۳۔ عمل کی ظاہری ہیت
عمل صالح میں دنیاوی معاملات شامل نہ ہونے کی ایک وجہ عمل کی ظاہری ہیت بھی ہے۔ کچھ اعمال اپنے ظاہر ہی میں نیکی نظر آتے ہیں جبکہ کچھ اعمال اس حیثیت سے نیکی نہیں دکھائی دیتے۔ مثال کے طور پر نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، قربانی، تسبیحات ، تلاوت وغیرہ اپنے ظاہر ہی میں اعمال صالح معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ دوسری جانب حقوق العباد سے متعلق نیک اعمال اپنے ظاہر میں اس طرح نیکی معلوم نہیں ہوتے جیسے تعلق باللہ کے امور۔ اسی بنا پر عوام اور کچھ علماء کو ان معاملات کو نیکی کے طور پر لینے میں ایک نفسیاتی تردد محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ جس اصول کے تحت تعلق باللہ کے امور اعمال صالح ہیں اسی اصول کے تحت روزمرہ کی زندگی کے معاملات بھی صالح اعمال ہیں۔ اصول وہی ہے یہ کوئی بھی عمل جو مخصوص شرائط کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد اپنی یا کسی مخلوق کی فلاح ہو۔
۴۔ دین و دنیا کی تقسیم
ایک اور وجہ دنیا کو دین سے الگ سمجھنا ہے۔ حالانکہ اصل تقسیم دین و دنیا کی نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی ہے۔ دنیاوی زندگی میں تمام امور بشمول دین شامل ہیں ۔اگرکوئی شخص دین کا کام کررہا ہے تو دراصل وہ خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچارہا بلکہ خدا کی مخلوق کو پیغام پہنچا کر ان کے لیے نفع کا کام کررہا ہے۔ یہی کام ایک ایک ڈاکٹر ، انجنئیر ، مصنف یا کوئی دوسری دنیا وی عمل کرنے والا شخص کررہا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوسکتا ہے کہ دنیاوی کاموں کی بالعموم کوئی فیس لی جاتی ہے اور دینی کام عام طور پر بغیر کسی فیس کے ہوتے ہیں۔ لیکن نوعیت کے اعتبار سے دونوں کاموں میں کوئی فرق نہیں ، دونوں مخلوق کی فلاح کے لیے ہیں اور دونوں کا اجر آخرت میں ملنے کا امکان ہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر کوئی استاد مدرسے میں کمپیوٹر کی تعلیم دے رہا ہے اور اس کے چالیس ہزار روپے لے رہا ہے تو اس کی تدریس کو نیکی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ یہ کام ایک دینی مدرسے میں کررہا ہے۔ لیکن اگر وہ یہی کورس کسی یونی ورسٹی میں پڑھائے اور اتنی ہی فیس لے تو اسے نیکی نہیں گردانا جاتا۔ حالانکہ دونوں کا مقصد فلاح پہنچانا ہے اور اس لحاظ سے دونوں اعمال نیکی میں شمار ہوتے ہیں۔
۵۔تمام غیر مسلموں کو کافر جاننا
ایک اور وجہ یہ مفروضہ ہے کہ تمام غیر مسلم کافر ہیں اور ان کے اعمال رائگاں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سائنسدان جب کوئی چیز ایجاد کرتا ہے اور اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن اس پر سب سے پہلے یہ چیک لگایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں۔اگر وہ غیر مسلم ہو تو ہم سب پہلے ہی فتوی لگا دیتے ہیں کہ اس کا تو عمل قابل قبول ہی نہیں۔حالانکہ ہمیں علم نہیں کہ کیا اس پر اتمام حجت ہوچکی یا نہیں، کیا اس تک خدا کا پیغام صحیح معنوں میں پہنچ گیا؟ کیا اس نے سب کچھ سمجھ کر، جان کر اور مان کر اسلام کا انکار کردیا؟ ظاہر ہے ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں ۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم اس کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور فیصلہ خود کرنے کی بجائے حقیقت جاننے والی ہستی کو سونپ دیں۔
۶۔ نیت کا پوشید ہونا
ایک اور وجہ نیت کا ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے۔ دینی اعمال میں نیت باقاعدہ نظر آتی ہے کہ یہ عمل خدا کے لیے خاص ہے۔ مثال کے طور پر نماز یا روزے میں باقاعدہ یہ نیت ہوتی ہے کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے۔دوسری جانب دنیاوی عمل خواہ کتنا ہی فلاح و بہبود کا کام کیوں نہ ہو ، اسے نیکی تسلیم کرنے کے لیے فلٹریشن سے گذرنا ہوتا ہے۔ جیسے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا عمل اپنی فلاح سے متعلق ہے اور نیکی ہے۔ لیکن اسے بلاکسی تخصیص کے دنیاداری سمجھا جاتا ہے اور نیکی نہیں مانا جاتا۔حالانکہ ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے اور اپنی فیملی کے روزگار کا ذریعہ بنتا ہے، وہ اپنی خدمات سے سوسائٹی کی خدمت کرتا ہے، وہ اپنی آمدنی سے ملک کے جی ڈی پی میں خاطر خواہ اضافہ کرتا ہے اور اس طرح ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ سارے کام چونکہ اپنی یا مخلوق کی فلاح کے ہیں اس لیے نیکی ہیں۔
خلاصہ
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی کا تصور دین میں محدود نہیں بلکہ وسیع ہے۔ اس کا دائرہ کار صرف دینی نہیں بلکہ دنیاوی اعمال تک پھیلا ہوا ہے۔ خدا کے نزدیک ہر وہ عمل نیکی ہے جو اس کی حرام و حلال کی قیود میں رہتے ہوئے نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد اپنی یا مخلوق کی براہ راست یا بالواسطہ فلاح ہو۔
پروفیسر محمد عقیل

بیوی پر شک اور بدگمانی


بیوی پر شک اور بدگمانی
کہتے ہیں مرد عام طورپر شکی ہوتے ہیں۔شک کا ایک بڑا سبب عادت و مزاج ہوتا ہے۔ چنانچہ کچھ مرد اپنی بیویوں پر بلاجواز شک کرتے اور ان پر کڑی نگاہ رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انہیں ایک ایسے پولیس مین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو ہر شخص کو مجرم سمجھتا ہے۔ ایسے شوہر اپنی بیوی کو مجرم گردانتے اور ہر دوسرے دن اس سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی عفت کا ثبوت پیش کرے۔
اس قسم کے لوگ باآسانی بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بیوی کی ہر ٹیلفون کل پر نظر رکھتے ، اس کے ایس ایم ایس سے غلط معنی اخذ کرنے کی کوشش کرتے، اس کے مو ڈ سوئینگ کو الٹی سیدھی توجیہہ دینے کی کوشش کرتے ، اس کی مسکراہٹ کے پیچھے کسی کا خِیال محسوس کرتے، اس کی چہل قدمی کو کسی کا انتظار سمجھتے اور اسکے میک اپ کو اپنی بدگمانی کی عینک سے مشکوک بنادیتے ہیں۔ جب بیوی ذرا بھی ان کے سوالات کا جواب دینے میں چوک جاتی اور انہیں مطمئین نہیں کرپاتی تو ان کے شک کا سانپ اور سرکش ہوجاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے شک کا یہ اژدہا پورے خاندان کو نگل لیتا ہے۔

شک کا تعلق ماحول سے بھی ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ایک بند ماحول میں رہنےوالا شخص باآسانی بدگمانی کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔ اور اگر بیوی ذرا آزاد ماحول کی ہو بس پھر تو معاملہ خراب۔ بیوی کا کسی سے ہنس کر بات کرنا، کسی کی بات پر مسکرادینا، کسی کی تعریف میں دو بول بول دینا، کسی پر تبصرہ کردینا ایک تنگ نظر میاں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہر آنے والا دن بیوی کوایک بے حیا عورت کے روپ میں پیش کرتا رہتا ہے۔ایسا مرد اپنی بدگمانی میں طرح طرح کی باتیں سوچتا اور الٹے سیدھے اندازے لگاتا رہتا ہے۔ اس کی بدگمانی کبھی اس کی مردانگی پر سوالیہ نشان ڈالتی، کبھی بیوی کے کردار کو براپیش کرتی، کبھی بیوی کی بے تکلفی کو فحاشی گردانتی تو کبھی اس کی سرگرمیوں کی ٹوہ لینے پر اکساتی ہے۔

بیوی سے بدگمان ہونے کی ایک اور وجہ کوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے ۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہوکر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے جس میں ایک بے حیا عورت کے کردار کو دکھایا گیا ہوتا ہے۔ اب اسی مفروضے پر جب وہ روزمرہ کا جائزہ لیتا ہے تو بیوی کی بہت سے باتیں اس کردار سے ملتی جلتی معلوم ہوتی ہیں۔ اس کی بیوی اس بے حیا کردار کی طرح فیس بک بھی استعمال کرتی، وہاٹس ایپ بھی چلاتی، ای میل بھی کرتی اور ایس ایم ایس بھی بھیجتی نظر آتی ہے۔ اسے اپنی بیوی بالکونی میں بھی کھڑی دکھائی دیتی اور کبھی چھت پر جاتی نظر آتی ہے۔ اب اسے یہ خیال آتا ہے کہ کسی طرح بیوی کی جاسوسی کرے۔ اس جاسوسی میں کوئی نہ کوئی ایسی بات مل سکتی ہے جو شک کو قوی کردے۔ اس کے بعد اعتماد متزلزل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
بدگمانی کی اس کے علاوہ بھی بے شمار وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک بدگمان شخص اس مفروضے پر سوچتا ہے کہ اس کی بیوی غلط راہوں پر جارہی ہے یہی اصل خرابی کی جڑ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شخص کا شک درست ہوسکتا ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ شک غلط بھی ہوسکتا ہے۔چنانچہ عا م اصول کے تحت ہر شخص کو شک کافائدہ دینا چاہئے اور اسے اس وقت تک بے قصور سمجھنا چاہئے جب تک کہ اس کے قصور وار ہونے کے قوی ثبوت نہ مل جائیں۔
بدگمانی کے کئی حل ہیں۔ اول تو بدگمانی جب بھی پیدا ہو تو اسے پہلے مرحلے پر جھٹک دینا چاہئے۔اگر اس سے کام نہ بنے تو بدگمانی کی وجہ معلوم کرکے اس کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اگر شک بہت قوی ہو تو اسے بات چیت کے ذریعے ڈسکس کرلینا چاہئے۔ اس سے رشتے میں دراڑ کی بجائے مضبوطی پیدا ہوگی۔ اگر معاملہ اس سے بھی حل نہ ہو تو چند بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر سماجی دباؤ کے تحت کام کروایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجو بھی اگر معاملہ حل نہ ہو تو کیا کریں؟ فرض کریں ایک شخص کی بیوی واقعی کسی دوسرے مرد میں دلچسپی رکھتی ہے تو جذبات سے قطع نظر ہوکر دیکھیں تو کیا کیا جاسکتا ہے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کریں اور حل نہ ہونے کی صورت میں خوش اسلوبی سے علحیدگی اختیار کرلیں۔
پروفیسر محمد عقیل

یور ٹائم اسٹارٹس ناؤ


یور ٹائم اسٹارٹس ناؤ
جب ایک طالب علم امتحان دینے جاتا ہے تو اس کی ابتدا اور انتہا کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے امتحان شروع کرسکتا اور نہ اس مقررہ وقت کے بعد امتحان جاری رکھ سکتا ہے۔
جس طرح دنیوی امتحانات کا ایک وقت مقرر ہے تو اسی طرح آخرت کے امتحان کا بھی ٹیسٹ مقررہ وقت پر شروع ہوتا اور اس وقت کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر غیبت کے ٹیسٹ کا وقت ایک خاتون کے لئے اس وقت شروع ہوتا ہے جب اسے اپنے ارد گرد کے ماحول میں لوگوں سے حسد ، جلن اور بدگمانی ہو۔جونہی وہ اس ماحول سے نکل کر ایک ایک دودراز ملک میں جاکر رہنا شروع کرتی ہےجہاں کوئی نہیں جس سے وہ باتیں کرسکے تو اس ٹیسٹ کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اب اگر اس نے ناموافق حالات میں تو دل کھول کر اپنے مخالفین کی برائی کی ۔ لیکن جب اسے تنہائی ملی اور کوئی غیبت کرنے والا نہ ملا تو خاموش ہوگئی اور یہ سمجھنے لگی کہ میں تو غیبت نہیں کرتی تو غلط فہمی کا شکار ہے۔ اس نے غیبت کے ٹیسٹ پیریڈ میں ناکامی کا مظاہرہ کیا اور فیل ہوگئی۔ اب وہ خاموش اس لئے ہے کہ حالات بدل گئے ہیں۔
جس طرح نماز وں کا وقت مقرر ہے، روزے کا متعین وقت ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک خاص موقع ہے اور حج کا مخصوص موسم ہے ایسے ہی دین کے بیشتر امتحانات کا موقع متعین وقت میں ہی ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا موقع ان کی زندگی تک ہے موت کے بعد نہیں، عفو درگذر کے ٹیسٹ کا آغاز اسی وقت ہوتا ہے جب کسی کے خلاف غصہ عروج پر ہو، شوہر یا بیوی کے حقوق کی ادائیگی کا ٹیسٹ ازدواجی زندگی کے دوران ہے۔
ہم سب کو چاہئے کہ اپنے اپنے امتحانات اور ان کے اوقات کو پہنچانیں۔ ہم دیکھیں کہ اس وقت ہم کس قسم کی آزمائش میں ہیں اور پھر اسی مناسبت سے اپنی کاردگی پیش کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی خاص معاملے مسئلے کے امتحان کا وقت آئے اور گذر بھی جائے لیکن ہمیں پتا تک نہ چلے۔ امتحانی اوقات کو پہچاننا بذات خود ایک آزمائش ہے۔ جو اس آزمائش میں ناکام ہوگیا وہ امتحان میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔
پروفیسر محمد عقیل

ڈپریشن، تھکاوٹ اور بدمزاجی کیوں؟


ڈپریشن، تھکاوٹ اور بدمزاجی کیوں؟
عظمی عنبرین/ اقصی ارشد
اگر گھر میں ایک ہی ٹی وی ہو تو تین گروپ بن جاتے ہیں ۔ مردوں کو سیاسی ٹاک شوز پسند آتے ہیں ، خواتین انٹرٹینمنٹ اور شو بز کے چینل لگانا چاہتی ہیں اور بچے کارٹونز پر پل پڑنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ تینوں کا واحد مقصد ہوتا ہے اور وہ یہ تسکین کا حصول ۔ سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ لطف، مزا یا تسکین حاصل کرکے اپنے آپ کو ریلیکس کرلیں گے۔ لیکن ہم ایک اہم بات بھول جاتے ہیں۔ تسکین حاصل کرنے کے لئے دو عوامل کا ہونا لازمی ہے۔ ایک تو تسکین کا موقع اور دوسرا تسکین حاصل کرنے کی صلاحیت۔ مثال کے طور پر آپ چھولوں کی چاٹ کھاکر لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی آپ کے منہ کا ذائقہ بخار اور گلے میں درد کی بنا پر کڑوا ہوچکا ہے۔ تو اب آپ چھولے کھاکر بھی تسکین حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ آپ میں اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت موجود نہیں۔
بالکل ایسے ہی ہماری پوری زندگی میں یہ دو عوامل ہونا لازمی ہیں یعنی تسکین کا موقع اور تسکین کے حصول کی صلاحیت۔ ایک بہت ہی خوشی کے موقع پر بھی ایک پاگل یا نفسیاتی شخص محظوظ نہی ہوسکتا۔ ایک منفی ذہن کا شخص بارش سے لطف اندوز ہونے کی بجائے خوفزدہ ہوجاتاہے، ایک دولت مند شخص ڈپریشن کے باعث اپنی دولت سے فائدہاٹاحنے سے قاصر ہوتا ہے وغیرہ۔
ہماری ساری توجہ تسکین کے ذرائع تلاش کرنے پر ہوتی ہے ۔ لیکن اگر ہم سکون حاصل کرنے کی صلاحیت پر بھی توجہ دیں تو کم چیزوں میں زیادہ بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ ہمارے سکون ی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ منفی سوچ، احساس کمتری، چرچڑاہٹ، موڈ کی باربار تبدیلی، ذہنی تناؤ اور ڈپریشن جیسے مسائل ہیں۔ جب تک ان پر قابونہ پایا جائے ہم کسی طور تفریح تو کیا ایک نارمل لائف بھی نہیں گزارسکتے۔
ان تمام بیماریوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایک تحقیق کے مطابق ہماری سوسائیٹی میں اس کی ایک بڑی وجہ کچھ مخصوص وٹامن کی کمی ہے۔ اس میں سرفہرست وٹامن بی ۱۲ ہے۔ یہ بات تشویشناک ہے کہ عوام الناس وٹامن بی 12 کی اہمیت سے کماحقہ آ گاہ نہیں ہیں ،جبکہ نفسیاتی امراض کے سلسلہ میں یہ جزو لا ینفک کی حیثیت رکھتا ہے وٹامن بی انسانی صحت میں ہاضمے سے لے کر دماغ کی صحت تک کے لیے انتہائی ضروری ہے جبکہ پاکستان میں یہ وٹامن فراہم کرنے والی غذا کی قلت کی بنا پر لوگ بڑ ے پیمانہ پر اس اہم اور ضروری وٹامن کی کمی کا شکا ر ہوتے ہیں اور اکثر نفسیاتی بیماریاں اس وٹامن کی کمی کی ہی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔
اگر آپ مندرجہ ذیل علاما ت سےگزر رہے ہیں تو یہ آپ کے جسم میں وٹامن 12 –B کی شدید کمی کا عندیہ ہے :
1.احساسات و جذبات کا غیر معمولی اتا ر چڑھاؤ۔
2.روزمرہ کے کاموں میں بے رغبتی ،خواہ وہ اپنی مرضی و منشا کے پسندیدہ مشاغل ہی کیوں نہ ہوں 3.دماغ کا چکرانا ۔
4.سونے کے اوقات کی بے اعتدالی ۔
5.سستی و بے ہمتی والا رویہ ، ٹینشن، ڈپریشن
6.معمولی سی باتوں پر بدمزاجی اور جھلاہٹ
7.دیگر معاشرتی دباؤ یا پسپائی والی علامات
اس وٹامن کی کمی کو یوں تو ٹیسٹ کے زریعے معلوم کرایا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اس وٹامن کو زیادہ مقدار میں لے بھی لے تو یہ نقصان دہ نہیں کیونکہ یہ قدرتی طریقوں سے جسم سے از خود خارج ہوجاتا ہے ۔ بالعموم نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنےوالے ڈاکٹرز اس کے بارے میں لوگوں کو ایجوکیٹ نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کی کمائی متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
عام خوراک میں وٹامن کی دستیابی کا بڑا ذریعہ بچھڑے کا جگر ہے ۔کسی حد تک یہ مرغی کے جگر اور انڈوں میں بھی پایا جاتا ہے ،مگر ہمارے ملک میں جو برائلر چکن دستیاب ہے جس میں اس وٹامن کی حسب ضرورت مقدار نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں وٹامن بی کی سپلمنٹس (ادویات) بھی ملتی ہیں اور انجکشن کی مدد سے بھی یہ کمی دور کی جاتی ہے۔ اس وٹامن کے سالانہ صرف دس انجکشن لگوانا کافی ہیں۔ہر انجکشن کے بعد ایک دن کا وقفہ اور پھر اگلا انجکشن ،اسی طرح دس مکمل کریں ۔ کچھ کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں ایک سال میں ہر تین ماہ بعد ہ کورس کرنا چاہیے؛ اس بارے میں حتمی فیصلہ کوئی ماہر نفسیات یا یا ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے تاہم اس معاملے میں آپ کو انتہائی محتاط اور با خبر رہنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ وٹامنز کی کمی سے ہونے والی نفسیاتی الجھنوں نے نجات حاصل کرسکیں۔

نیا احتساب


نیا احتساب
کیا ہم حسد کرتے ہیں ؟ کیا ہم زنا کرتے ہیں؟ کیا ہم جھوٹ بولتے ہیں ؟ ان تمام سوالات کا جواب عین ممکن ہے ہم یہ دیں کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ عام حالات میں کوئی گناہ کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں جب انسان گناہ کی جانب مائل ہوتا اور غلط کام کرتا ہے۔
نیکی اور گناہ کا تعلق انسان کے داخلی اور خارجی ماحول سے ہے۔داخلی ماحول میں انسان کی طبیعت، مزاج، خواہشات،رغبات اور مفادات کا دخل ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنی شخصیت میں غیض و غضب کا پہلو نمایاں رکھتا ہے تو وہ باآسانی غصہ کی جانب مائل ہوجائے گا۔ دوسری جانب خارجی ماحول میں انسان کے گردو پیش کے معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور دیگر حالات کا دخل ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص مغربی ماحول میں پلا بڑھا تو اس کے لئے زنا کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک انسان کے لئے اپنے داخل و خارج کے موافق حالات میں نیکی کرنا عام طور پر آسان ہوتا ہے۔ دوسری جانب اگر حالات ناموافق ہوں تو ایسی صورت میں نیکی کرنا اور گناہ سے بچنا ایک جہاد بن جاتا ہے۔ یہی اصل آزمائش کا وقت ہوتا ہے اور یہیں انسان کے رخ کا تعین ہوجاتا ہے کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔
عام طور پر جب ہم اپنا احتساب کرتے ہیں تو ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہیں جو موافق اور نارمل ہیں۔ چنانچہ جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ ہم تو جھوٹ نہیں بولتے ، ہم تو حسد کا شکار نہیں ہوتے، ہم تو بدگمانی نہیں رکھتے، ہم کسی کے خلاف بات نہیں کرتے ، ہم تو شاید کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس طرح ہم اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دیکھنے کا زاویہ بدل لیں تو صورت حال برعکس بھی ہوسکتی ہے۔ممکن ہے ہماری زندگی میں سچ بولنے کا امتحان آیا ہی صرف دس مرتبہ ہو اور اس ان تمام ناموافق مواقع پر ہم یہ کہہ کر جھوٹ بول گئے کہ کبھی کبھی تو چلتا ہے۔ ممکن ہے ہمیں اپنے مدمقابل صرف چار لوگ ہی ایسے ٹکرائے ہوں جنہیں دیکھ کر حسد محسوس ہو اور ہم ان چاروں مواقع پر حسد کا شکار ہوچلے ہوں۔ ممکن ہے ہمیں زندگی میں چندہی مرتبہ کسی اپنے مفادات کے خلاف کوئی حق بات پیش کی گئی ہو اور ہر موقع پر ہم نے عصبیت و ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے حق کو رد کردیا ہو۔
چنانچہ ہم سب کو نئے سرے سے اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لیتے وقت اپنی شخصیت کو ناموافق حالات میں رکھ کر سوچنا چاہئے۔ہمیں خود یہ یہ سوال کرنا چاہئے کہ آیا ہم خود کو اس وقت بھی سچ بولنے پر آمادہ کرلیتے ہیں جب مادی نقصان سامنے ہو، کیا ہم اس وقت صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں جب دل شدت غم سے پھٹا جارہا ہو، کیا ہم اس وقت لوگوں کو معاف کردیتے ہیں جب ان کی غلطی ایک مسلم حقیقت بن چکی ہوتی ہے، کیا ہم اس وقت بھی اپنے آپ کو چھوٹا مان لیتے ہیں جب ہماری انا بری طرح مجروح ہورہی ہے۔اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے سرے سے امتحان کی تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ آزمائش کے وقت ہم ناکام ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر محمد عقیل

المبشر میگزین ۔۔ پانچواں شمارہ


المبشر میگزین کا پانچواں شمارہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجیے
Al-Mubashir Nov-2015

المبشر میگزین ۔۔ چوتھا شمارہ


المبشر میگزین کا چوتھا شمارہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے لنک پر کلک کیجیے
Al-Mubashir-OCT-2015

میں کیوں لکھتا ہوں؟

میں کیوں لکھتا ہوں؟
از: پروفیسر محمد عقیل

اکثر بھائی اور بہن فہم القرآن میں جواب دیتے ہیں اور کچھ آرٹیکلز وغیرہ بھی لکھتے ہیں۔ ایک سوال اکثر بھائی یا بہن مجھ سے کرتے ہیں کہ ہمارے فہم القرآن میں جواب دینے کا کیا فائدہ؟ کوئی پتا نہیں پڑھتا ہو یا نہیں۔ اگر پڑھتا ہوگا تو بھی ہم سے کوئی خاص متاثر نہیں ہوتا ہوگا وغیرہ۔
ایک نئے لکھنے والے کے لئے ان خدشات کو بے جا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو یہی خدشات میرے ذہن میں آتے تھے ۔ اس پر بس نہیں، تنقیدیں بھی آتی تھی براہ راست یا بالواسطہ۔ میرے استادوں نے میری حوصلہ افزائی کی جس سے کافی سکون ملتا تھا۔ لیکن ایک وقت آیا کہ یوں محسوس ہونے لگا کہ میں کونسا بڑا تیر مارلوں گا یہ چند معمولی سے آرٹیکلز لکھ کر۔
اس سوال سے میرے لئے دو نئے سوال پیدا ہوئے۔ ایک سوال یہ تھامیں کس کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور دوسرا سوال تھا کہ میں کس کی خوشی کے لئے لکھ رہا ہوں ۔
پہلے سوال کا جواب مجھے یوں ملا کہ میں دنیا بھر کی اصلاح تو کر ہی نہیں سکتا ، ہاں اپنی اصلاح کرسکتا ہوں ۔ تو ان تحریروں مقصد میری اپنی اصلاح ٹہری۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ جب میں سوسائٹی کو اخلاقیات کا درس دینے کھڑا ہوا تو سب سے پہلے مجھے اپنی اخلاقیات درست کرنے کی جانب توجہ کرنی پڑی۔ جوں جوں میں تحریریں لکھتا گیا ، میرے تعلق باللہ، اخلاقیات ، معاملات اور عبادات کی غلطیوں پر چوٹ لگتی گئی۔ تو مجھے سمجھ آگیا کہ لکھنا دوسروں کی نہیں میری ضرورت ہے۔
دوسرا سوال : میں کس کی خوشی کے لئے لکھ رہا ہوں ۔ میرے قاری تو مجھے چند تعریفی کلمات کے سوا کچھ نہ دے سکتے تھے۔ یہ تعریفی کلمات بھی ایک وقت کے بعد لایعنی ہوجاتے تھے۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ سب کچھ تو میں خدا کی رضا کے لئے کررہا ہوں۔ تو آپ بھی جب کوئی اسائنمنٹ یا تحریر لکھیں تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اسے کوئی پڑھے نہ پڑھے ، اللہ تعالی ضرور پڑھیں گے۔ وہ زبان و بیان کی چاشنی اور تحقیق کی عرق ریزی کے ساتھ سے زیادہ یہ دیکھیں گے کہ میرے بندے نے کس اخلاص سے یہ بات کری، اس کی نیت کیا تھی، اس میں کتنا حصہ خدا کی رضا کے لئے تھا۔ خدا کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ الفاظ میں ربط ہے یا نہیں ، وہ تو بس بندے کا اخلاص اور محنت دیکھ کر اس کی تحریر کو منظور کردیں گے۔ اور جس کی تحریر خدا منظور کردے ، اسے کسی اور کی کیا ضرورت؟
تو لکھئے اور خوب لکھئے کیونکہ اسے کوئی پڑھے نہ پڑھے اللہ تعالی ضرور پڑھتے ہیں۔
فتبارک اللہ احسن الخالقین