Archive for the ‘سماجی مضامین’ Category

کرونا،خدا اور نیچر


مولانا وحیدالدین خان نے ایک واقعہ نقل کیا کہ کچھ لوگ غار ثور کی زیارت کو گئے۔ فجر کا وقت تھا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عقیدت میں ننگے پاؤں اس کی زیارت کریں گے۔ وہ وہاں پہنچ تو گئے لیکن واپسی میں تیز دھوپ نکل آئی اور ان کے لیے ننگے پاؤں چلنا دو بھر ہوگیا۔ کچھ کے پاؤں بری طرح جل کو پڑھنا جاری رکھیں

سیکس ایجوکیشن اور ہم


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سیکس ایجوکیشن اور ہم
ڈاکٹر محمد عقیل
تعارف
سیکس ایجوکیشن ہمارے معاشرے میں اتنا حسا س مسئلہ ہے کہ اس پر بڑے بڑے اہل علم بھی قلم اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماں باپ اپنے بچوں کو وہ بنیادی باتیں بتانے میں جھجکتے ہیں جن کو مائنس کرکے زندگی نہیں گذاری جاسکتی۔ہمارے تعلیمی ادارے جنسی تعلیم کا سلیبس بنانے میں اگر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو اس کا نفاذ نہیں کرپاتے۔ ہمارا میڈیا ان باتوں کو شائستہ اسلوب میں ڈسکس کرنا گناہ عظیم سمجھتا ہے۔ لیکن کو پڑھنا جاری رکھیں

والدین کے فیصلے

سوال: اگر اولاد اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے والدین کے آگے نہ بولے اور ان کے غلط فیصلوں کی نذر ہو جائے تو قیامت کے دن والدین سے اس کا سوال ہو گا؟ یا وہ اپنے مرتبے کی وجہ سے اولاد کے لئے غلط فیصلوں کا بھی اختیار رکھتے ہیں اور ان سے کوئی حساب نہ ہو گا؟

جواب: اس کائنات کے نظام کو چلانے کے لئے اللہ نے انسانو ں کے لئے حقوق و فرائض کا دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔ کہیں ہم حقوق سے نوازے گئے ہیں تو کہیں فرائض کی صورت میں ذمہ داریاں ودیعت کی گئی ہیں ۔مگر یہ بات قابل غور ہے کہ ہر ذمہ داری کی پوچھ گچھ بھی اس کے مطابق ہو گی یعنی جتنی بڑی ذمہ داری اتنا بڑا احتساب ۔۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد حقوق کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ رہے۔

اس کائنات ارضی کے رشتوں میں والدین کا رشتہ سب سے معزز اور اہم ترین ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جابجا والدین سے حسن سلوک کا تاکیدی حکم ملتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ اولاد پر صرف فرائض ہی عائد کئے گئے ہیں بلکہ ان کے حقوق بھی اخلاق ،معاشرت اور قانون کا حصہ بنائے گئے ہیں۔والدین بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے علاوہ ہر اطاعت کے لئے اسلام کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اطاعت صرف معروف یعنی بھلائی اور نیکی کے کاموں میں کی جائے گی۔اسی اصول کی بنا پر والدین کی اطاعت بھی مشروط ہے۔( حوالہ سورہ العنکبوت: 8)

والدین کی فرمانبرداری بلاشبہ ایک اعلیٰ صفت ہے مگر ان کے غلط فیصلوں پر مؤدب احتجاج اور اپنے حقوق کے کے لئے آواز بلند کرنا کوئی غلط بات نہیں۔مگر یاد رہے اس میں بدتمیزی کا عنصر شامل نہ ہو۔ ناجائز مطالبات میں ان کا ساتھ نہ دیں مگر آپ اپنا فرض نبھاتے رہیں اور ان کی ضروریات پوری کریں ،خدمت جاری رکھیں ۔باقی رہا یہ سوال کہ کیا والدین سے ان کے غلط فیصلوں پر احتساب ہو گا تو قیامت کے دن ” جوذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسکو پا لے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اسکو پا لے گا ” (سورہ الزلزال 7،8 ) وہاں کسی کی بخشش کسی مرتبہ کی بنا پر نہ ہو گی اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لازماً دینا پڑے گا۔

والدین کی جانب سے غلط فیصلے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ تو ان کی ضد، ہٹ دھرمی، اپنی بات منوانا،لالچ، انا پرستی اور خود غرضی وغیرہ ہوسکتی ہے۔ یہ وجوہات عام طور پر اولاد کی شادی اور جوائینٹ فیملی سسٹم کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کی کسی بھی حرکت جس کا محرک کو ناجائز فعل ہو اس کا مواخذہ ہوگا۔ دوسری وجہ کوئی اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے جس کی چھوٹ ہے۔
البتہ آپ کے سوال کو بعینہ قبول کرنے میں مجھے ایک تامل ہے۔ اکثر دیکھا کیا ہے کہ والدین اپنے تجربے اور اولاد کی بھلائی کے جذبے سےان کے لئے جو فیصلے کرتے ہیں وہ بوجوہ ( اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں) اولاد کے لئے قابل اعتراض ہوتے ہیں۔ اس لئے والدین کے معاملے میں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔
بسا اوقات بظاہر ان کے غلط دیکھائی دیے جانے والے فیصلے بعد میں درست ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن کبھی کبھار صورت حال ویسی بھی ہو سکتی ہے جس کی نشاندہی آپ نے کی ہے تو اس صورت میں بلاشبہ والدین سے بھی ان کے اعمال کا ان کی نیتوں کے مطابق حساب کتاب ضرور کیا جائے گاالاّ یہ کہ اللہ ان کے ساتھ مغفرت کا معاملہ کرے۔لیکن یہ مغفرت ان کے رتبے کی بنا پر نہ ہو گی بلکہ اللہ کی رحمت کی بنا پر ممکن ہے جس کا حقدار ہونے کے لئے ہم سب دعاگو رہتے ہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کسی منفی جذبے کے زیر اثر آکر اولاد پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔ سب سے بڑھ کر جو بات والدین کو سمجھنی چاہِے وہ یہ کہ والدین کے حقوق کے بارے میں سوچنا والدین نہیں اولاد کا کام ہے۔ اگر کوئی اولاد یہ کام نہیں کررہی تو ٹینشن نہیں لینی چاہیے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہِے۔ ایسے ہی اولاد کو بھی والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنا چاہِے۔احسان کا مطلب ہے اپنا جائز حق بھی چھوڑ دینا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین
واللہ اعلم

جواب: راعنہ نقی سید

المبشر میگزین ۔۔ پانچواں شمارہ


المبشر میگزین کا پانچواں شمارہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجیے
Al-Mubashir Nov-2015

جادو اور نفسی علوم کی نوعیت

جادو اور نفسی علوم کی نوعیت
پروفیسر محمد عقیل

جادو ،سحر یا نفسی علوم کی حقیقت کیا ہے؟
ہمیں سحر کی نوعیت کو مختصرا جان لینا چاہئے۔کچھ اسکالرز درست طور پر بیان کرتے ہیں کہ جس طرح اللہ نے انسان کو مادی علوم دیے ہیں اسی طرح نفسی یا روحانی علوم بھی دیے ہیں۔ میری دانست میں مادی علوم اپنی ذات میں حرام نہیں بلکہ ان کا حصول اور استعمال انہیں حرام بناتا ہے۔ بالکل ایسے ہی نفسی یا روحانی علوم اپنی ذات میں حرا م نہیں بلکہ ان کے حصول کا طریقہ اور استعمال انہیں ناجائز بناتا ہے۔
نفسی علوم حرام ہیں یا حلال؟
نفسی علوم کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے ایک وہ جو جائز ہیں اور دوسرے وہ جو ناجائز ہیں۔جائز نفسی علوم کو عام طور پرپیراسائکولوجی، روحانی علوم، ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ ناجائز نفسی علوم کو جادو، سحر، سفلی علم ، کالا علم وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
نفسی علوم دووجوہات کی بنا پر ناجائز ہوتے ہیں۔ایک تو ان کے حصول کا طریقہ اور دوسرا ان کے استعمال کا طریقہ۔ اگر کوئی نفسی علم شیطانی قوتوں سے مدد لے کر حاصل کیا جائے تو ناجائز ہے۔ ماہرین کے مطابق کہ جنات میں موجود شیاطین انسان کو مدد فراہم کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں وہ انسان سے شرک کرواتے ، اپنی پوجا کرواتے، اپنے کسی دیوی یا دیوتا کی پوجا کراتے ، کسی انسان کو قتل کراتے یا کسی اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب کراتے ہیں۔ چونکہ اس علم کا حصول شرک و کفر پر مبنی ہے اسی لئے اس علم کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
نفسی علوم کی دوسری قسم اپنی ذات میں جائز ہے انہیں ہم جائز نفسی علوم یا پیراسائکوکولوجی کہہ سکتے ہیں۔ ان کے جائز ہونے کی وجہ ان کا حصول کا طریقہ ہے۔ ان کے حصول میں کسی شیطانی قوت یا شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ یا تو اس علم جائز مذہبی روایات سےاخذ کیا جاتا ہے یا پھر نیوٹرل طریقہ لیا جاتا ہے جس پر کوئی شرعی یا اخلاقی قدغن نہیں۔ البتہ یہ علم اس وقت ناجائز ہوجاتا ہے جب اس سے غلط قسم کے مقاصد حاصل کیے جائیں جیسے کسی کو قتل کرادینا، کسی کو ایذا پہنچانا وغیرہ۔
نفسی علوم کی کیا حدود ہیں؟
اس بارے میں ہمیں اطمینا ن رکھنا چاہیے کہ نفسی علوم خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ، ان کا اثر محدود ہوتا ہے۔ کچھ نفسی علوم محض آنکھوں کو دھوکا دے کر اپنا کام کرتے ہیں، کچھ کسی اور ذریعے سے۔ لیکن ان کا ثر اتنا ہی محدود ہوتا ہے جتنا ماد ی علوم کا۔ مثال کے طور پر انسان ٹیکنالوجی کی مدد سے آج ہوائی جہاز تو بنا سکتا ہے لیکن اس کی اپنی محدودیت ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ یہ جہاز ایک مخصوص اسپیڈ سے زیادہ تیز اڑے جیسے لائٹ کی اسپیڈ، یا یہ بغیر رن وے کے اڑ پائے ، یا بنا ایندھن چلے یا لوہے کی بجائے کاغذ کا بن جائے یا کروڑوں لوگوں کو ایک ساتھ اپنے اندر سمولے۔ بالکل اسی قسم کی محدودیتیں نفسی علوم میں بھی ہوتی ہیں۔
نفسی علوم کے ذریعے کوئی دنیا فتح نہیں کرسکتا اگر ایسا ہوتا تو دنیا پر جادوگروں اور پیراسائکلوجی کے ماہرین کا راج ہوتا۔ نفسی علوم کے ذریعے کوئی انسان کو جانور اور جانور کو کسی اور شکل میں تبدیل نہیں کرسکتا ورنہ جادوگر اپنے دشمنوں کو نہ جانے کیا بناچکے ہوتے۔ ان کے ذریعے دولت کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جاسکتا ورنہ سارے کالے علم کے ماہر اپنے گاہک تلاش کرنے کی بجائے یہی کام کررہے ہوتے اور آج سب سے زیادہ مالدار ہوتے۔ ان علوم کے ذریعے مادے کی ہیت نہیں بدلی جاسکتی ورنہ دنیا کی ساری مٹی سونا ہوچکی ہوتی اور کاریں یا دیگر چیزیں سائنس دان نہیں جادوگر بنارہے ہوتے۔ جادو اور سحر کی محدودیت کو اسی طرح کامن سینس اور مشاہدے کی بنیاد پر چیک کیا جاسکتا ہے۔
سحر یا نفسی علوم کا طریقہ واردات کیا ہے؟
نفسی علوم دو یا تین طریقوں سے کام کرتے ہیں لیکن سب کا اثر انسان کی نفسیات پر پڑتا ہے۔ ایک طریقہ موکل کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ اس میں ہمزاد یا جنات کو اپنا تابع یا دوست بنا کر کام کیاجاتا اور ان سے اپنا کام کرایا جاتا ہے۔ یہ جنات لوگوں کی نفسیات پر حملہ کرتے، انہیں ڈراتے ،دھکماتے ، مختلف روپ میں آتے ، انہیں ٹیلی پتھی کی ذریعے اپنے شیطانی خیالات سے پریشان کرتے ہیں تاکہ اپنے وکیل کے مذموم مقاصد پورا کرسکیں۔ ان کو البتہ یہ اختیار نہیں ہوتا کہ کسی کی جان لے لیں۔ اگر ایسا ہوتا تو شیطان سب سے پہلے اللہ کے نیک بندوں اور داعیوں کو ہلاک کردیتا ۔ ان شریر جنات کا اثر زیادہ تر کمزور نفسیات رکھنے والے لوگوں پر ہوتا ہے جبکہ مضبوط نفسیات والے لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ شیطان یا جنات کسی کو نفسیاتی طور پر مایوس کرکے خودکشی پر تو مجبور کرسکتا ہے لیکن براہ راست قتل کرنے کی طاقت اس میں نہیں۔
جادو کا دوسرا طریقہ کچھ غیب کی خبریں معلوم کرنا ہوتا ہے۔ قرآن کے مطابق اس کاا یک طریقہ تو یہ ہے کہ جب ملائے اعلی سے احکامات کا نزول ہوتا اور اوپر کے فرشتوں سے یہ بات نیچے زمین کے فرشتوں کو بتائی جارہی ہوتی ہے جو کچھ شریر جنات یہ باتیں سن لیتے ہیں۔ گوکہ انہیں مار کر بھگادیا جاتا ہے لیکن وہ کچھ باتیں الٹے سیدھے طریقے سے سن کر اپنے وکیلوں کو بتادیتے ہیں جن میں وہ دس جھوٹی باتیں ملاکر بات بیان کردیتا ہے۔
ایک ماہر کے مطابق اس کا دوسرا طریقہ کسی شخص کی نفسیات کوپڑھنا ہوتا ہے۔ ٹیلی پیتھی کے ذریعے شیاطین انسان کی موجودہ سوچ کو پڑھ سکتے ہیں ۔ یعنی ایک انسان اس وقت کیا سوچ رہا ہے اس کو شیاطین پڑھ کر اپنے وکیلوں کو بتاسکتے ہیں البتہ انہیں انسان کی ماضی کی سوچ کو جاننے کا اختیار اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ انسان ان سوچو ں کو خیالات میں نہیں لاتا۔ لیکن یہ علم بھی بہت ادھورا ہوتا ہے کیونکہ ایک انسان کی کچھ وقت کی سوچ سے پورے معاملے کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
کیا عامل صحیح علم رکھتے ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق نوے پچانوے فی صد سے زائد عامل جعلی ہوتے یا ادھورا علم رکھتےاور عوام کی نفسیات سےکھیلتے ہیں۔
اس بات کا کس طرح پتا چلے گا کہ یہ علم جادو یعنی حرام عمل ہے یا ایک نفسی علم؟
اس کا بہت آسان جواب ہے۔اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ کالا علم ہے تو اس کے پاس تو پھٹکنا بھی نہیں چاہیے۔ جو لوگ روحانی علم کے ذریعے علاج کا دعوی کرتے ہیں ان کے تعویذ وغیرہ کو کھول کر دیکھنا چاہئے ۔ اگر اس میں شیطانی کلمات لکھے ہوں یا ایسے کلمات ہوں جو ناقابل فہم ہوں تو فورا اجتناب برتنا چاہیے۔ اگر کوئی ایسا عمل ہو جس میں گندگی وغیرہ کی ہدایت ہو تو گریز کرنا چاہیے جیسے کچھ عملیات باتھ روم میں ہوتے ہیں، کچھ غلاظتوں پر۔
کیا روحانی علوم یعنی قرآن کے ذریعے علاج جائز ہے؟
سورہ فاتحہ دم وغیرہ کرنا، آیت الکرسی کے ذریعے حفاظت طلب کرنا، سورہ الفلق اور سورہ الناس کو جاد و کے توڑ کے لئے استعمال کرنا اور دیگر سورتوں سے علاج کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پیچھے واضح کیا کہ جادو اور نفسی علوم کا اثر نفسیاتی ہوتا ہے اس لئے جو بھی پڑھا جائے اس کا ترجمہ یا مفہوم ضرور ذہن میں رکھا جائے ورنہ ماہرین کے مطابق شفا کے امکانات کم ہوتے یابالکل ہی نہیں ہوتے۔
کیا تعویذ وغیرہ جائز ہیں جبکہ کچھ احادیث میں گنڈے اور تعویذ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے بے شمار علوم ایسے ہیں جو انسان کے نفع کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ انسان ان سے حسب ضرورت استفادہ کرسکتا ہے۔ دین اس وقت ان علوم میں مداخلت کرتا ہے جب ان میں کوئی اخلاقی یا شرعی قباحت پائی جائے۔ جیسے میڈیا سائنسز ایک نیوٹرل علم ہے جس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے پر مذہب کا کوئی مقدمہ نہیں۔ اگر یہ علم انسانوں کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہو اور اس سے محض فحاشی و عریانیت اور مادہ پرستی ہی کو فروغ مل رہا ہو تو مذہب مداخلت کرکے اس کے استعمال پر قدغن لگاسکتا اور اسے جزوی طور پر ممنوع کرسکتا ہے۔
میرے فہم کے مطابق کچھ ایسا ہی معاملہ نفسی علوم کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ علم سحر کی حیثیت سےیہود اور کچھ مشرکین کے پاس تھا ۔ چونکہ کسی پیغمبر کی بعثت کو ایک طویل عرصہ گذرچکا تھا اس لئے ان علوم پر بھی شیاطین کا قبضہ تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح معاشرہ اور تطہیر کا کام کیا تو اس علم پر بھی خاص طور پر توجہ دی۔ اس زمانے میں تعویذ ، گنڈے اور دیگر چیزیں مشرکانہ نجاست رکھتی تھیں اس لئے انہیں ممنوع اور حرام قرار دے دیا گیا۔ اصل علت یا وجہ جادو یا شرک تھا تعویذ کا استعمال نہ تھا۔
اس کی بہترین مثال تصویر ہے۔ تصویریں اس زمانے میں بنائی ہی شرک کی نیت سے جاتی تھیں اس لئے جاندار کی تصویر بنانا ممنوع کردیا گیا۔ لیکن بعد میں جب تصویروں میں علت نہیں رہی تو علما نے اسے جائز قرار دے دیا۔ یہی معاملہ تعویذ گنڈوں کےساتھ بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تعویذ وغیرہ کا براہ راست دین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ نفسی علوم کا ایک طریقہ اور ٹول ہے۔ چنانچہ اگر کوئی تعویذ شرکیہ نجاستوں سے پاک ہے تو اس پر وہی حکم لگے گا جو دم درود یا دیگر روحانی علوم پر لگتا ہے۔
دین کا نفسی علوم کے بارے میں کیا رویہ ہے؟
دین حرام قسم کے نفسی علوم کے استعمال کو قطعا ممنوع کردیتا ہے ۔ جائز نفسی علوم کے استعمال پر بھی دین کوئی بہت زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ سنت سے ثابت ہے کہ آپ نے کسی کو رزق کے حصول کے لئے وظیفہ نہیں بلکہ دنیاوی عمل بتایا، بیماری کا علاج دم درود سے نہیں بلکہ طبیب اور مادی اسباب سے کیا، جنگ میں کامیابی کے لئے مراقبوں اور مکاشفوں سے مدد نہ لی، مستقبل کے لیے ستاروں کی چال کو درخور اعتنا نہ سمجھا، مشکلات ہے حل کے لیے اسباب کرنے کے بعد اللہ پر توکل کیا تعویذ گنڈے نہیں کیے۔ کیونکہ آپ کا مقصد ایک حقیقت پسند اور توہمات سے پاک امت کا قیام تھا ۔
نفسی علوم پر بھروسہ نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ علوم باقاعدہ سائنس نہیں بن پائے ہیں۔ سائنس جس طرح سبب اور اثر یعنی کاز اور افیکٹ (Cause and Effect) تعلق کو قطعیت کے ساتھ بیان کرتی ہے، یہ علوم ابھی اس پریزینٹیشن سے کوسوں دور ہیں۔ اسی لئے ان کا استعمال عام طور پر توہمات کو فروغ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ البتہ کوئی وظیفہ یا عمل اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درست طور پر منسوب ہے یا تجربہ کی بنا پر اس کی قطیعت ثابت ہوچکی ہے تو اس کے استعمال میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی۔
ہارو ت و ماروت پر جو علم اتارا گیا تھا کیا وہ جادو تھا؟
جیسا کہ ہم نے پڑھا کہ جادو حرام ہے اور اس کی وجہ ا س میں شرک کی علت کا ہونا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالی اپنے فرشتوں کے ذریعے اس قسم کا کوئی علم کیسے اتار سکتے ہیں جس میں شرک کی آلائش ہو۔ میری رائے کے تحت ہاروت و ماروت پر اتارا گیا علم پیراسائکلوجی کے جائز علوم میں سے ایک تھا ۔ البتہ اس کا استعمال منفی و مثبت دونوں طریقوں سے کیا جاسکتا تھا۔ جیسا کہ اسی آیت میں ہے:
غرض لوگ ان سے (ایسا) سحر سیکھتے، جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (سحر) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔(البقرہ ۱۰۲:۲)
اس آیت میں ہے کہ اس علم سے فائدہ بھی پہنچ سکتا تھا اور نقصان بھی ۔ لیکن انہوں نے صرف نقصان پہنچایا جس میں سرفہرست میاں بیوی میں جدائی تھی۔ اس کی وجہ بھی کچھ علما کے نزدیک یہ تھی کہ بنی اسرائل کو اس دور میں غیر یہودی عورت سے شادی کرنا ممنوع تھا۔ اس وقت خواتین کی کمی تھی اس لَئے لوگ جدائی ڈلواکر اس کی عورت کو اپنی بیوی بنانا چاہتے تھے۔ تو بہر حال وہ علم کسی طور شرکیہ یا ممنوع علم نہ تھا بلکہ اپنی اصل میں جائز تھا۔ اس کے منفی استعمال کی مذمت کی گئی ہے۔ یعنی وہ علم اپنی ذات میں حرام نہیں بلکہ آزمائش تھا ۔ البتہ اس کا منفی استعمال اسے حرام بنا رہا تھا
کیا جادو کرنا کفر یا شرک ہے؟
چونکہ جادو میں شرک و کفر کی آمیزس ہوتی ہے اور اس میں خدا کے علاوہ دیگر قوتوں کی مدد مانگی جاتی ہے اس لئے جادو کرنا حرام اور شرک ہے۔ اسی طرح جادو کا استعمال بالواسطہ طور پر شرک و کفر کے درجے تک لے جاتا ہے۔
کیا جادو کا توڑ جادو سے ہوسکتا ہے؟
جادو کا توڑ کوئی روحانی یا نیوٹرل علم تو ہوسکتا ہے لیکن جادو نہیں۔
نوٹ:
اس تحریر میں میں نے کئی علما ، ماہرین اور مفسرین سے برا ہ راست یا بالواسطہ استفادہ کیا ہے۔ ان سب کا نام لکھنا تو ممکن نہ تھا البتہ ان سب کا میں عمومی طور پر شکر گذار ہوں ۔
پروفیسر محمد عقیل
۲۷ اکتوبر ۲۰۱۵
۱۳ محرم الحرام ۱۴۳۷ ہجری

زلزلہ پر کچھ سوالات


زلزلہ پر کچھ سوالات
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ کو کوہ ہندوکش کی پلیٹوں میں حرکت کی بنا پر ایشیا میں زلزلہ آیا۔ اس کے سب سے زیادہ اثرات پاکستان میں محسوس کیے گئے ۔ اس زلزلے پر ہمارے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن کا جواب جاننا ضروری ہے۔ ذیل کو پڑھنا جاری رکھیں

لیکچر: فحاشی واشاعت فاحشہ


لیکچر: فحاشی واشاعت فاحشہ
از: پروفیسر محمد عقیل

المبشر میگزین۔۔ پہلا شمارہ


المبشر میگزین کا پہلا شمارہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے لنک پر کلک کیجیے
Al-Mubashir Magazine june 2015

محبت –کیا ، کیوں ، کیسے؟

محبت –کیا ، کیوں ، کیسے؟
پروفیسر محمد عقیل
سوشیالوجی کی کلاس میں آج کافی ہل چل تھی۔اس ہلچل کی وجہ آج کا موضوع تھا یعنی ” محبت کیا ، کیوں اور کیسے ہوتی ہے۔” پروفیسر کلاس میں داخل ہوئے تو دھماچوکڑی مچانے والے لڑکے لڑکیاں اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔
پروفیسر ادریس نےاپنا موٹا چشمہ سنبھالا اور کلاس کا آغاز کیا:
کو پڑھنا جاری رکھیں

اعتقاد کی سند


اعتقاد کی سند
میں چند دن قبل اپنے دوست سے ملنے گیا ۔ کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے پتے میں کافی عرصے سے درد ہے۔ اور وہ ایک دن پتے کا آپریشن کرانے کے لئے ہسپتال میں بھی ایڈمٹ ہوگیا تھا کہ کسی صاحب نے کہا کہ کلونجی ہر مرض کی دوا ہے اور یہ بات قرآن و حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ کا کلام کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ بس تم صبح سے سات دانے کلونجی کے کھانا شروع کردو۔
میرے دوست نے ہسپتال سے کوچ کیا اور کلونجی کے کو پڑھنا جاری رکھیں