وجودِ زن کے مصنوعی رنگ(از پروفیسر محمد عقیل)


عورت کا وجود نوعِ انسانی کی بقاکے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کا۔ عورت بہن‘ بیٹی اور بیوی کے روپ میں ایک نعمت ہے ۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک ماں ہے جس کی آغوش ایک نومولود کی طبعی ضروریات ہی پورا نہیں کرتی بلکہ اس کی نفسیات پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ لہٰذا ایک ماں کی گود سے ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ دنیا کی اعلیٰ ترین درسگاہ بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر ماں خدا کو بھگوان کے روپ میں پیش کرے تو بعد میں اس بھگوان سے خدائے حقیقی تک پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ ایک بچہ خیروشر، شرک و توحید اور جبر و قدر جیسے دقیق موضوعات سے لے کر صبروقناعت‘ سادگی و حیا اور فقر و استغنا جیسے عملی مسائل پر ابتدائی تعلیم ماں ہی سے حاصل کرتا ہے۔
علم کی اس اولین درسگاہ کا اپنا قبلہ ہی درست نہ ہو تو قدرت کے فطری نقشہ میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بگاڑ کا عملی نمونہ کبھی دنیا ہٹلر‘ میسولینی اور چنگیزخان کی شکل میں انفرادی سطح پر دیکھتی ہے تو کہیں اجتماعی سطح پر قوم لوطؑ ‘ قوم عاد ؑ اور ثمود کی صورت میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔خواتین کی طبیعت میں کئی پہلوؤں سے بگاڑ پیدا ہوسکتاہے مگر اس تحریر میں ہم صرف ایک خاص چیز کی طرف توجہ دلارہے ہیں یعنی نمود و نمائش کے جذبے میں حد سے بڑھ جانا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ عورتوں میں نمود و نمائش کا جذبہ مردوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جذبہ اگر اپنی حدود میں رہے تو دنیا کے حسن میں اضافہ کرتا ہے اور اگر ان قیود سے ماورا ہو جائے تو فساد برپا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی نمود و نمائش کے بے شمار پہلو ہیں لیکن ان کاسب سے نمایاں اظہار ملبوسات اور زیورات کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی مقصد سترپوشی ہی نہیں بلکہ زینت و آرائش بھی ہے بشرطیکہ اس میں اسراف نہ ہو ۔لیکن اگر ہم خواتین کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مطمح نظر اکثراس سے مختلف ہوتاہے۔ اکثر خواتین ملبوسات کو مقابلے کے جذبے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی لباس کو زیب تن کر لیا جائے تو دوسری تقریب کے لیے وہ شجرِ ممنوعہ بن جاتا ہے۔ پھر اگر کوئی یہ بدعت کر بھی لے تو اسے غربت کے طعنے دے کر راہِ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لباس جتنا مہنگا ہو، اتنا ہی خاتون کے اعلیٰ ذوق اور اسٹیٹس کا عکاس سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب زیورات کا شوق بھی خواتین کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ سونا جو کہ انتہائی بے مصرف دھات ہے خواتین ہی کی وجہ سے انتہائی قیمتی بنا ہوا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اسٹیل کی چوڑیاں پہننا عار اور سونے کی چوڑیاں پہننا وقار سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں محض دھاتیں ہیں۔ سونے کی قدروقیمت کا تعلق قدیم ترین نفسیات سے ہے۔ چنانچہ یہ زیورات تالوں میں بند الماریوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ اگر کبھی خواتین سے یہ کہا جائے کہ ان زیورات کو کسی منافع بخش مصرف میں استعمال کیا جائے تو ان کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔
خواتین اسی نمود و نمائش کے جذبے کے تحت تقاریب کو رونق بخشتی ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے نت نئے لباس پہنے جاتے ہیں۔ منفرد نظر آنے کی خواہش میں لاکھوں روپے کے زیورات بنوائے جاتے ہیں اور پھر اسے مووی میں محفوظ کرکے امر کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسی طرز عمل کی بناء پر آمدنی کے ناجائز ذرائع کو فروغ ملتا ہے۔ کرپشن پیدا ہوتی ہے۔ سادگی کی جگہ تصنع و بناوٹ آجاتی ہے۔ معصومیت کی بجائے چالاکی پیدا ہوتی ہے۔ ہمدردی کی بجائے حسد گھر کر لیتا ہے۔یوں انسانیت کی یہ عظیم ترین درسگاہ بگاڑ کا شکار ہو کر ایک بڑے بگاڑ کو جنم دینے کا سبب بن جاتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ خواتین یہ فیصلہ کریں انہیں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس جھوٹی شان و شوکت کی ختم نہ ہونے والی جدوجہد میں جھونک دینا ہے یاانہیں سادگی اور وقار کا درس دینا ہے ۔ کیونکہ سادگی ہی وہ راستہ ہے جس کے ساتھ کسی شخص کو اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے ظاہری سہاروں کی ضرورت نہیں رہتی۔

One response to this post.

  1. Posted by seemab qadeer on 16/05/2011 at 4:40 شام

    Aqil bhai you have written an excellent article. It is full of knowledge and facts. This is what has been happening and will keep on happening unless and until some God fearing women come.

    جواب دیں

تبصرہ کیجئے