جنسی بے راہ روی اور پاکیزگی


ایک مرتبہ میرے ایک قریبی دوست عبداللہ نے اپنی نوجوانی کے دور کا قصہ سنایا کہ وہ اپنے کسی جاننے والے ساتھی کے ساتھ کہیں جارہا تھا، اچانک اس کے ساتھی نے عبداللہ سے کہا کہ وہ ایک فون کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ اور اس کا ساتھی ایک پبلک فون بوتھ میں داخل ہوگئے۔ ساتھی نے کال ملائی اور بات کرنی شروع کی۔
"ہیلو ! کیا حال ہیں”۔ ساتھی نے پوچھا
"ٹھیک ہیں ، تم سناؤ”۔ دوسری طرف سے کسی عورت کی آواز آئی چونکہ عبداللہ ساتھ ہی کھڑا تھا اس لئے اس نے دوسری جانب کی آواز واضح طور پر سنی۔
"کیا تمہارے شوہر گھر پر ہیں؟” ساتھی نے پوچھا
"نہیں ، وہ موجود نہیں ۔ اسی لئے تو تمہارا انتظار ہورہا ہے”۔ عورت نے دعوت گناہ دیتے ہوئے ے لہجے میں جواب دیا۔
"بس میں چند لمحوں میں آرہا ہوں، میرا انتظار کرو”۔ ساتھی نے پرجوش انداز میں جواب دیا۔
عبداللہ جو اپنے ساتھی کے برابر ہی میں کھڑا تھا وہ اسے حیرت ، غم اور غصے سے دیکھنے لگا۔ حیرت اس بات پر کہ جو باتیں اس نے لطیفوں میں سنی تھیں آج وہ حقیقت میں سامنے آگئی تھیں۔ غم اس بات پر کہ اس جنسی بے راہ روی میں اس کا ساتھی ملوث تھا اور غصہ اس بات پر کہ وہ اپنے ساتھی کو اس فعل سے روک نہیں سکتا تھا۔
عبداللہ اور اسکے ساتھی کا رویہ دو مخالف سمتوں میں ظاہر ہوا۔ ایک جنسی بے راہ روی کا دلدادہ اور دوسرا اس کا سخت مخالف۔عبداللہ اپنے ساتھی کو احمق سمجھ رہا اور اس کی اصلاح کا خواہاں تھا تو دوسری جانب اس کا ساتھی بھی عبداللہ کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات رکھ رہا تھا۔ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ عبداللہ کیوں اس گولڈن چانس کو مس کرنے کا درس دے رہا ہے۔
عبداللہ اور اسکے ساتھی میں اختلاف صرف دو افراد کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری پوری سوسائٹی ان دو گروپوں میں منقسم ہے۔ ایک گروپ جنسی بے راہ روی کو درست سمجھتا، اس سے محظوظ ہوتا اور اس کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چنانچہ ابتد ا میں توفحش گفتگو، گندے لطیفے ، انٹرنیٹ پر گندی تصویریں اور فحش ویڈیوز سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب یہ چیزیں اندر کی بھڑکی ہوئی جنسی آگ کو بجھانے کی بجائے مزید بھڑکا دیتی ہیں تو قدم غلط راستے پر چل نکلتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں تمام اخلاقی و مذہبی حدود کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا اور کسی بھی حد سے گذر جانے کو ایڈوینچر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس برعکس ایک دوسرا گروپ بھی سوسائٹی میں موجود ہے جو انتہائی اقلیت میں ہونے کے باوجود اس بے راہ روی کے طوفان میں قدم جما کر کھڑا ہے۔ اس گروہ کے افراد اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے، اپنے کانوں کو فحش گفتگو سے بچاتے، اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھتے اور اپنی زبان کو لگام دے کر رکھتے ہیں۔جونہی شیطان یا نفس کا ناجائز تقاضا ان کی شخصیت پر حملہ آور ہوتا ہے تو یہ چوکنّے ہوجاتے ہیں۔ یہ تقوٰی اور ضبط نفس کے ذریعے خود کو اس غلاظت سے بچالے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ بے راہ روی کی کتاب ایک کًبھی نہ ختم ہونے والی داستان ہے، یہ ایک خارش سے بھرپور پھوڑا ہے جس کو جتنا کھجایا جائے گا خارش اتنی ہی بڑھے گی ۔یہ جانتے ہیں کہ ایک دن انہیں اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے جس میں اعضاء خود ہی گواہی دینے لگ جائیں گے کہ انہوں نے کیا کیا۔
اصل کامیاب لوگ یہی ہیں جو دوسرے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں خواہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری جانب پہلے گروہ سے تعلق رکھنے والے ناکام ہیں خواہ بظاہر کتنے ہی کامیابی کے مواقع انہوں نے استعمال کرلئے ہوں۔
مصنف: پروفیسر محمد عقیل
Aqilkhans@gmail.com
https://aqilkhans.wordpress.com

13 responses to this post.

  1. Posted by گمنام on 01/02/2012 at 8:26 صبح

    bhot acha likha he mgr un k liye he jo waqai is daldal se bchna chate hen wrna zada tr to sirf parhe ge or phr wahi harkate krte hen

    جواب دیں

  2. …Excellant read, keep encouraging the righteous people

    جواب دیں

  3. اگر انسان اپنے نفس پر قابو پالے تو وہ ایسی لذتوں سے دور رہ سکتا ہے۔

    جواب دیں

  4. Posted by atika aziz imran on 14/01/2012 at 12:02 صبح

    The story is very simple but it is presenting the hideous picture of our society and unfortunately we are the part of this society.
    muashary ki kahaniyan kitnee hee sadha aur sachee houn mager ye itnee hee bhyanak aur sharmnak hotein hein keep writing good work really our society need eye openers.

    جواب دیں

تبصرہ کیجئے