ٹھگ(پروفیسر محمد عقیل)


پرانے وقتوں میں لوگوں کوبیوقوف بناکرمال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہواکرتاتھااس گروہ سے وابستہ لوگ ٹھگ کہلاتے تھے۔انہی ٹھگوں کاایک واقعہ ہے کہ ایک دیہاتی بکراخریدکراپنے گھرجارہاتھاکہ چارٹھگوں نے اسے دیکھ لیااورٹھگنے کاپروگرام بنایا۔چاروں ٹھگ اس کے راستے پرکچھ فاصلے سے کھڑے ہوگئے۔وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھاتوپہلاٹھگ اس سے آکرملااوربولا’’بھائی یہ کتاکہاں لےئے جارہے ہو؟‘‘دیہاتی نے اسیگھورکردیکھااوربولا’’بیوقوف تجھے نظرنہیںآرہا کہ یہ بکراہے کتانہیں‘‘۔دیہاتی کچھ اورآگے بڑھاتودوسراٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا’’یاریہ کتاتوبڑاشاندارہے کتنے کاخریدا؟‘‘دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب یہ کتاکہاسے لیا؟‘‘اب دیہاتی تشویش میں مبتلاہوگیاکہ کہیں واقعی کتاتونہیں۔اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔بالآخرچوتھے ٹھگ سے ٹکراؤہوگیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا’’جناب کیااس کتے کوگھاس کھلاؤگے؟‘‘اب تودیہاتی کے اوسان خطاہوگئے اوراس کاشک یقین میں بدل گیاکہ یہ واقعی کتاہے۔وہ اس بکرے کوچھوڑکربھاگ کھڑاہوایوں ان چاروں ٹھگوں نے بکراٹھگ لیا۔
آج ہمارامعاشرابھی دوسری نوعیت کے ٹھگوں کی یلغارمیں ہے۔ان کاطریقہ واردات بڑاسادہ ہے۔پہلے یہ مسلمہ اخلاقی اصولوں کے متعلق تشکیک(Skepticism)پیدا کرتے ہیں کہ آج کا دور سچا ئی کا نہیں، آج عفت و عصمت کی باتیں پردقیانوسیت کی نشانی ہیں، آج کا دور ایمانداری کرنے کا نہیں وغیرہ۔ پھراس شک کوتقویت دینے کے لیے شدومدسے پروپیگینڈاکرتے ہیں۔یہاں تک کہ جنوں کانام خردپڑجاتاہے اورخردکانام جنوں۔
یہ ٹھگ درحقیقت مفادپرست اورمادہ پرست لوگ ہیںیہ لوگوں کوسچائی کی راہ پرچلتے دیکھ کرکڑھتے رہتے ہیں یہ نیک لوگوں کو دیکھ کر چاہتے ہیں کہ یہ بھی برے بن جائیں۔ان کامقصدمسلمہ اخلاقی اقدارکوختم کرکے اپنی مرضی کی قدروں کوفروغ دیناہوتاہے۔یہ اپنے پروپیگینڈے کے ذریعے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کومتاثرکرتے ہیں یہاں تک کہ دوسرے گروہ بھی ان لوگوں میں شامل ہوکربرائی کوفروغ دیناشروع کردیتے ہیں۔
یہ ٹھگ کیاکام کررہے ہیں؟اس کاجواب بہت آسان ہے۔یہ مادی آسائشوں کے حصول کواس شدومدسے بیان کرتے ہیں کہ مقصدحیات آخرت کی بجائے دنیا رہ جاتاہے۔یہ ایمانداری کے خلاف اتنی دلیلیں دیتے ہیں کہ ایک ایماندارشخص مصلحت پسندی کاشکارہوجاتاہے۔یہ ناجائزمنافع خوری کوحق ثابت کرکے دوسرے لوگوں کوبھی اس قبیح فعل پرمجبورکرتے ہیں۔یہ عبادات کورسومات بناکرلوگوں کوخداسے دورکرتے ہیں۔یہ نکاح کوزناکے مترادف قراردے کرخاندانی نظام کوختم کرنے کے درپے ہیں۔یہ ہوس کومحبت کانام دے کرنوجوان نسل کوگمراہ کرتے ہیں۔یہ مذہب کوکلچر سے تعبیر دے کرلوگوں کواس سے متنفرکرتے ہیں۔غرض یہ ٹھگ اس جدید دنیا کے ماڈرن شیطان ہیں۔یہ ہمارے پاس اپنی قبیح شکل میں نہیں آتے بلکہ یہ سوٹ بوٹ ک میں ملبوس ہو کر ہمار ے ہمدردبن کریہ ساری کارروائی کرتے ہیں۔
اس پوری صورتحال سے بچنے کے لیے ایک صالح مومن کودوتدابیراختیارکرنی ہیں۔ایک تویہ کہ وہ حق وباطل کے میعارات عوام الناس کی رائے سے اخذکرنے کی بجائے وحی اومسلمہ اخلاقی اصولوں سے اخذکرے۔دوسرایہ کہ وہ ان شیطانوں کوپہچانے اوران کی باتوں کواہمیت نہ دے ورنہ اس کاحشراس دیہاتی کی طرح ہوگاجوبکرے کوکتاسمجھ بیٹھا۔

3 responses to this post.

  1. Posted by shabbir on 26/02/2012 at 4:07 شام

    tamam musalman itnay he masoom hain. Haqeqat to ye hay kay saree dunya main yahee ho raha hay. agar american awam say pocha jayee to taqreeban sab yahee kahain gay kay american fojon ko afghanistan say bulaya jayee magar govt aisa nahee kar rahee lakin is ka matlab ye to nahi kay awam bholay hain. TU PHIR MUSALMANO KA ITNA RONA DHONA Q

    جواب دیں

  2. بہت ہی پیاری بات کی ہے آپ نے۔

    جواب دیں

Leave a reply to Darvesh Khurasani جواب منسوخ کریں