مشکلات کیوں آتی ہیں؟

سوال : آپ نے لکھا ہے کہ صدقہ  مصیبتوں کو ٹالتا ہے اور یہ نیچر کا ایک قانون ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ صدقہ کرتے ہیں اور پھر بھی ان پر مشکلات آتی رہتی ہیں۔ کیا یہ لوگ اس قانون سے مستثنی ہوتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے ؟

جواب : یہ بہت اہم اور دلچسپ سوال ہے۔ اس پر ایک تھیسس لکھا جاسکتا ہے۔ مختصرا یہ عرض کردوں کہ

انسان دنیاوی اور غیبی امور دونوں میں محض ایک قانون کے ماتحت نہیں ہوتا بلکہ بیسیوں قوانین اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے ایک شخص کسی ایک قانون کی تو پابندی کررہا ہو  اور اس کی بنا پر وہ کسی مثبت نتیجے کا مستحق ہو۔ لیکن اسی دوران یہ ممکن ہے کہ وہ کسی اور قانون کی خلاف ورزی کررہا ہو جس کا نتیجہ اسے بھگتنا ہے۔

مثال کے طور پر دنیاوی طور پر ایک شخص  محض فزکس ہی نہیں ، بلکہ کیمسٹری، بیالوجی، اکنامکس ، اور دیگر قوانین کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص فزکس کے قانون کی پابندی کررہاہے  تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اکنامکس کے قانون کی خلاف ورزی پر اسے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں۔ ایک شخص اپنے صحت کے اصولوں کی بے حد پابندی کرتا اور کھانے پینے، سونے جاگنے، واک کرنے اور جراثیم  سے بچنے میں  بہت احتیاط کرتا ہے۔ چنانچہ صحت کا قانون اسے انعام کے طور پر ایک اچھی اور عمدہ صحت مند زندگی عطا کردیتا ہے جو فطرت کے اس قانون کے تحت ہے کہ ” جو تم بوتے ہو، وہی تم کاٹوگے”۔ لیکن وہی شخص ڈرائیونگ کے معاملے میں بہت بے احتیاط ہے اور ٹریفک کے قوانین کی بالکل پابندی نہیں کرتا، نہ سگنل کو خاطر میں لاتا اور نہ ہی ڈرائیونگ میں مطلوبہ احتیاط کرتا ہے۔ چنانچہ نیچر کا  وہی  قانون”جو تم بوتے ہو وہی کاٹو گے” اسے اپنی گرفت میں لے کر اسے کسی ایکسڈنٹ سے دوچار کردیتا ہے اور وہ جسم جو صحت کی خرابی سے محفوظ رہا، کسی اور جرم کی بنا پر زخمی ہوگیا۔

یہی معاملہ غیبی  اوردنیوی قوانین کا بھی ہے۔ نظام الٰہی  کے تحت انسان کو کئی قوانین کا سامنا ہوتا ہے اور انسان کے سے پیش ہونے والے معاملات کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کسی ایک قانون کی تو پابندی کررہا ہوتا ہے لیکن کسی دوسرے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے جس کے نرغے میں وہ آجاتا ہے  جیسا کے اوپر کی مثال میں بیان کیا گیا ۔  بعض اوقات انسان  کے اعمال میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ہوتی ، البتہ آزمائش یا جانچ کی بنا پر اسے مشکل یا مصیبت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کی بہترین مثال حضرت ایوب کی بیماری ہے۔بعض اوقات کسی شخص  میں مطلوبہ استعداد پیدا کرنے کے لیے اسے آزمائش  سے گذارا جاتا ہے ۔  جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ، جن کا ایک اہم مقصد  مصر کا حکمران بناناتھا تاکہ عوام کو آنے والے طویل قحط میں ریلیف فراہم کیا جاسکے۔ بعض اوقات  انسان کے اعمال میں تو کوئی خامی نہیں ہوتی، البتہ نظام الٰہی کی کسی گرانڈ اسکیم کے تحت نافذ کی جانے والی مصیبت کا وہ بھی شکار ہوجاتا ہے جیسا دوسری جنگ عظیم میں ان بچوں اور بعض معصوم لوگوں  کا ہلاک  ہوجانا جو کسی طور اس جنگ کے ذمہ دار نہ تھے۔  بعض اوقات دیگر انسانوں کے آزادانہ اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والی  اجتماعی مصیبتوں کا کوئی شخص شکار ہوجاتا ہے ۔ اس کی مثال حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیوں کے نیتجے میں معاشی مسائل پیدا ہوجانا ہیں جس سے وہ شخص بھی متاثر ہوجاتا ہے جو ان حکمرانوں کا تو نہ تو لانے کا سبب ہے اور نہ ہی ان پالیسیوں کا ذمہ دار۔ 

کسی شخص کے ساتھ پیش آنی والی مشکل کی اصل وجہ کیا ہے؟ یہ جاننا  بعض اوقات بہت آسان ہوتا ہے بعض اوقات بے حد پیچیدہ۔ دنیوی معاملات میں تو کوئی شخص اسباب و علل کے قانون کے ذریعے یہ جان سکتا ہے کہ کسی مسئلے کی کیا وجہ ہے۔ البتہ غیبی امور میں یہ تعین کرنا کہ پیش آنے والی مصیبت ہماری کوتاہی ہے، کوئی آزمائش ہے، کوئی فائدہ مند تدبیر ہے یا کچھ اور ، یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس کی  مثال حضرت موسی اور خضر  کے واقعے سے ملتی ہے کہ جس میں کشتی والا ابتدائی طور پر  یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ میری ہی کشتی میں سوراخ کیوں ہوا، والدین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کا بیٹا کیوں فوت ہوگیا۔ یہاں تک کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسی بھی اس پس منظر سے ناواقف رہتے ہیں جب تک انہیں آگا ہ نہ کیا جائے۔

آنے والے مصیبت  ہماری کسی کوتاہی کے سبب تنبیہہ یا عذاب کی صورت میں  آئی ہے یا  یہ کوئی امتحان یا ٹریننگ ہے۔ اس کا تعین ایک ٹیکنک سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر مصیبت پڑنے کے بعد اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عذاب یا تنبیہہ ہے۔اور اگر اس مصیبت سے نکلنے کے کئی راستے مل جائیں تو سمجھ لیں کہ یہ آزمائش ہے جس کا مقصد انسان کے قول کو عمل سے جانچنا اور اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔

ڈاکٹر محمد عقیل

ہارمون، ہوس، جھوٹی محبت اور حقیقی انسیت

بدقسمتی سے مرد اور عورت کے پیدا ہونے والے ہر تعلق کو محبت سمجھ لیا جاتا ہے۔ جبکہ تین اہم  مراحل ہیں جنہیں ہارمون کی روشنی میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ایک مرحلہ شدید جنسی خواہش یا ہوس  کا ہے جب مردٹیسٹوٹیرون (testosterone)اور عورت ایسٹروجن (estrogen)نامی ہارمون کے اخراج کی بنا پر صنف مخالف  کی جانب جنسی  بھوک مٹانے کے لیے مائل ہوتے ہیں۔ یہ مرحلہ ٹین ایج میں بہت  زیادہ حاوی ہوتا ہے ۔ بالعموم لڑکے اپنی اس خواہش کو محبت کا رنگ دے کر نوجوان لڑکیوں جھانسا دیتے ہیں ۔ بعد میں  جب ان کی خواہش پوری ہوجاتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے اور لڑکیوں کو بیچ منجھدار میں تنہا چھوڑ کر چپکے سے نکل جاتے ہیں۔

ایک اور مرحلہ کشش  کا ہے جسے بالعموم محبت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں ایک دوسرے کے بنا دل نہیں لگتا، ہمہ وقت یاد ستاتی اور  ملنے کا لیے دل بیتاب رہتا ہے۔ یہ ڈوپامین (Dopamine) نامی ہارمون کی شرارت ہوتی ہے جس کا  کام کسی بھی ٹاسک کو انجام دینے لیے ترغیب دینا اور ایک فنٹاسی (Fantasy)پیدا کرنا ہے ۔یہ ہارمون بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کو اتنا حسین ، پرفریب دکھاتا اور مستبقل کے وہ سہانے سپنے پیش کرتا ہے جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا شکار شخص خود کو کسی فلم کا ہیرو یا ہیروئین سمجھ کر زندگی کا بنیاد مقصد ایک دوسرے کو حاصل کرنا ہی سمجھ لیتا ہے۔ لیکن جب وہ ایک دوسرے کو حاصل کرلیتے ہیں تو ڈوپامین کا اثر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اس کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو نشہ اترنے کے بعد ہوا کرتا ہے۔ اب دونوں کو ایک دوسرے کی حقیقی شکلیں نظر آنے لگ جاتی ہیں، اب انہیں سپنوں کی بجائے حقیقی زندگی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ اس  زندگی کا موازنہ اپنی توقعات سے کرتے ہیں تو دونوں کو بالعموم شدید مایوسی ہوتی ہے  اور انہیں اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے جسے وہ محبت کہتے تھے وہ محبت نہیں بلکہ ایک نشہ تھا جو اتر گیا اور اپنے پیچھے مایوسی کی داستان چھوڑ گیا۔

عورت مرد کے تعلق کا تیسرا مرحلہ  انسیت یا طویل مدتی تعلق (Long term attachment) کا ہوتا ہے۔ جو جوڑے  پہلے اور دوسرے مراحل میں ایک خارج ہونے والے ہارمونز کے جھانسے میں نہیں آتے اور اپنی شخصیت کو مضبوط اقدار اور اصولوں پر استوار کرتے ہیں ، وہ ہی اس مرحلے تک پہنچ پاتے اور اچھی ازدواجی زندگی گذارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ وفاداری، ایک دوسرے کا ہمراز بننا، قربانی دینا، فیملی بنانا، اچھے اور برے حالات میں ساتھ دینا، ایک دوسرے کی کوتاہیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ  کرنا وہ مرحلہ ہے جوزندگیوں میں حقیقی خوشیاں لے کر آتا ہے۔ اس مرحلے میں سب سے اہم ہارمون اوکسی ٹو سین (Oxytocin) ہے۔

اس مطالعہ کے بعد ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ انسان  ان ہارمونز کے ہاتھوں مجبور ہے اور یوں وہ بے قصور ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ ہارمونز کسی انسان کو بے بس نہیں بناتے بلکہ ان کے اخراج کا تعلق ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر ہم خود ہوس کا شکار ہیں تو ہوس پیدا کرنے والا ہارمون کی زیادہ خارج ہوگا، اگر ہم خود ہی فریب میں مبتلا ہونا چاہتے ہیں تو ڈوپامین اتنی ہی شرارتیں کرے گا۔ اگر ہم نے اپنی شخصیت کو اعلی اخلاقی اقدار کے تحت کھڑا کیا ہے تو ہم ہارمونز کے مثبت پہلو سے استفادہ کرسکتے اور ان کے منفی پہلووں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔

اگر آپ یا آپ کے ارد گرد کوئی شخص جنسی ہوس یا پرفریب کشش کو محبت کا نام  سمجھ رہا اور اس کے نشے میں اندھا ہورہا ہے تو اسے پہلے جنسی ہوس، جھوٹی محبت اور حقیقی انسیت میں فرق سمجھ لینا چاہیے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عین ممکن ہے آپ تو حقیقی محبت کے تحت  باقاعدہ نکاح کرنا چاہتے اور لانگ ٹرم تعلق استواکرنے کے خواہش مند ہوں ، لیکن آپ کا پارٹنر جنسی ہوس یا ڈوپامین کے اثر کو محبت سمجھنے کا دھوکا کھارہا کا دھوکا دے رہا ہو۔ اس صورت میں  سوچ سمجھ کر اقدام اٹھانا لازمی ہے۔

 ہوشمندی کاپہلا   قدم تو یہ ہے کہ جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں، خود کواور فریق کو وقت دیں اور ڈوپامین کا اثر کم ہونے دیں  اس کے بعد فیصلہ کریں۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ کسی ایسے نیوٹرل شخص یا اپنے کسی بڑے سے مشورہ کریں اور باتیں چھپانے کی بجائے انہیں ظاہر کردیں۔ یوں اس کا مشورہ آپ کو ایک درست سمت میں چلنے اور فریب سے بچنے میں معاونت کرسکتا ہے۔ آخری شے یہ کہ اگر آپ کی شخصیت مضبوط اخلاقی اصولوں پر استوار نہیں تو پھر بس ہوس اور جھوٹی محبت کے گرد شاید پوری زندگی گذرجائے، لیکن یہ ختم نہ ہوگی۔

ماخوذ

سیلاب کیوں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال 1:حضرت،  سیکڑوں لوگ سیلاب میں بہہ گئے، لاکھوں مکان  گرگئے، ہزاروں مویشی فنا ہوگئے، کیا بچہ ، کیا بوڑھا، کیا عورت، کیا مرد، سب  بے سرو سامانی میں کھلے آسمان کے نیچے آگئے۔ آخر خدانے یہ سب ہونے ہی کیوں دیا؟ وہ تو قادر مطلق ہے تو کیوں اس کی  قدرت کاملہ نے یک جنبش قلم اس تباہی کو روک   نہ دیا؟

جواب: جان لو، وہی تمہارا خدا ہے جو ہر شے پر قادر ہے  اور اسی خدا نے اپنا قانون نیچر میں کوڈ کردیا ہے۔ اسی  خدا کا قانون اس نیچر میں جاری ہے۔ نیچر کا یہ قانون خدا کی آیتیں (نشانیاں ) ہیں۔ جو کوئی بھی اس قانون  کو جان کر اور مان کر اس کے مطابق خود کو ڈھال لے گا، وہ امان میں آجائے گا خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل ، مذہب اور علاقے سے ہو۔

تو نیچر کے قانون میں لکھا ہے کہ جب انسان اپنی لالچ میں زمین پر خطرناک گیسوں کا اخراج کرے گا تو نیچر اس پر ری ایکٹ کرے گی اور بارشیں زیادہ ہونگی۔ جب انسان حرص و طمع میں درختوں کو کاٹے گا تو سیلاب کی روک کو ختم کردے گا۔ قانون میں لکھا ہے کہ جب کوئی قوم بار بار کی یاددہانی کے باوجود پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم نہیں بنائے گی تو ایسی ہی تباہ حالی کا شکار ہوگی۔ قانون میں لکھا ہے کہ پانی نیچے کی طرف بہتا ہے تو  اگر اس کی راہ میں   تجاوزات کی شکل میں رکاوٹ پیدا کی جائے گی تو یہ تباہ کن ہوگی۔ یہ تمہارے خدا ہی کا قانون ہے کہ جب پانی کی ویلاسٹی دوگنی ہوجائے تو اس کے پریشر میں 64 فی صد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ اسی خدا کا قانون ہے جس کو تم قادر مطلق کہتے ہو اور پھر قانون کو ماننے سے انکاری ہو۔

سوال 2: لیکن یہ کیا معاملہ ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی؟زہریلی  گیسیں ترقی یافتہ قومیں خارج  کریں اور بھگتنے کے لیے ہمارے گھر تباہ ہوجائیں، درخت لینڈ مافیا کاٹے اور مویشی غریبوں کے بہہ جائیں، ڈیم حکمران نہ بنائیں اور اور تباہی عوام کا مقدر ہو۔ فیصلے امیروں کے محلات میں ہوں اور آشیانے تباہ حال غریبوں کے  اجڑ جائیں؟

جواب: کرے کوئی اور بھرے کوئی بھی اسی  نیچر کے قانون کی ایک شکل ہے ۔اجتماعی معاملات میں اکثر  اوقات  انسان کو وہ کچھ مل جاتا ہے جس کی اس نے محنت نہیں کی ہوتی ۔ اسی اصول کے تحت بعض اوقات اسے دوسروں کی اجتماعی  غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

یہ سوال اس وقت کیوں نہیں پیدا ہوتا جب ایجادات تو مغربی اقوام کریں اور اس کا استعمال غریب قومیں بھی کریں؟ ملیریا پر تحقیق  مغرب میں ہو اور اس کا فائدہ پاکستان میں ایک دیہاتی بھی اٹھائے؟موبائیل، ٹی وی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، گوگل میپ تو مغرب بنائے اور اس سے استفادہ وہ بھی کریں جن کا اس میں کچھ حصہ نہیں۔ پس ، اگرتم دوسری قوموں کے اچھے اعمال سے مستفید ہوسکتے ہو تو ان کے برے اعمال کا نتیجہ بھی اسی قانون کے تحت بھگتنا ہوگا۔

رہی بات حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی  تو یہ تمہارے ہی ہاتھوں منتخب ہوئے لیڈر ہیں جنہیں تمہاری اکثریت نے ووٹ دے کر چنا۔ جن اداروں  سے تم شکوہ کرتے ہو، اس میں تم ہی  لوگ کام کرتے ہو، جن  نااہلوں کو تم کوس رہے ہو وہ تم ہی میں سے ہیں کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوئے۔

سوال 3: لیکن آخر یہ عذاب غریبوں ہی کے لیے کیوں ہے جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ آخر کیوں ان وڈیروں ، سیاستدانوں، جرنیلوں ، صنعت کاروں اور امیروں کے مکان محفوظ رہتے ہیں؟ آخر کیوں  ان کے بچے سڑکوں پر نہیں آتے؟ آخر کیوں ان کے کاروبار تباہ نہیں ہوتے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟

جواب: کیا تم سمجھتے ہو کہ اس سیلاب کا نشانہ یہ غریب لوگ تھے؟نہیں۔ نیچر میں کو ڈ کردیا گیا ہے جو عمار ت پانی کا دباو نہیں جھیل پائے گی وہ گر جائے گی  خواہ وہ پکی ہو یا کچی۔ اب اگر ایک غریب شخص کا مکان پکا ہے یا پانی کے راستے میں نہیں ہے تو بچ جائے گا اور ایک امیر شخص کا مکان ، فیکٹری یا کھیت اس راستے میں آیا تو تباہ ہوجائے گا۔ کتنے ہی امیروں کے ہوٹل تھے جو پکے تھے لیکن زمیں بوس ہوگئے۔

دوسری بات یہ ذہن سے نکال دو کہ غریب ہونے کا مطلب معصوم ہونا ہے اور امیر ہونے کا مطلب ایک گناہ گار۔ان غریبوں میں  بھی  ایسے لوگ ہیں جو مالی جرائم، ظلم و عدوان، جنسی تشدد ، کرپشن اور ناہلی جیسے کئی اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ پھر بڑی تعداد میں یہ  غریب لوگ  اپنی غربت کے خود ذمہ  دار ہیں۔قدرت سب کو یکساں مواقع فراہم کرتی ہے لیکن  ان  غریبوں کی سستی، کاہلی  اور جان بوجھ کر پیدا کی گئی نااہلی نے انہیں اپنی حالت بدلنے سے روک رکھا ہے۔

 سوال 4: لیکن خدا نے ان کو کیوں نہیں بچایا؟ وہ  تو رحیم و مہربان ہے تو کیوں نہ  اس کی  رحمت نے ان بے آسرا لوگوں کی مدد کی؟

جواب:  تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ اس ناقص پلاننگ، ناجائز تجاوزات، خدا کے قوانین قدرت کی نافرمانی اور مجرمانہ غفلت کے باوجود لوگوں پر رحم نہیں کیا گیا؟ ابھی تک سیلاب میں  مرنے والوں کی تعداد ہزار تک پہنچی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ تعدادکئی ہزاروں میں ہوتی ، لیکن خدا کی رحمت نے اسے ہزار تک محدود کردیا ۔ ہوسکتا ہے یہ بے آسرا لوگ جو زندہ بچ گئے ہیں ، وہ  سیلاب سے  نہیں تو بھوک سے مرجاتے لیکن اللہ نے صاحب ثروت لوگوں کے دلوں میں رحم ڈال کر ان تک امداد کا بندوبست کردیا۔ہوسکتا ہے کہ یہ بارش اس سے کئی گنا دگنی تھی لیکن اللہ کے نظام نے مداخلت کرکے اس کی شدت کو محدود کردیا ہو۔

تم لوگ بہت ناشکرے ہو۔ کرونا کے دوران جب دنیا بھر میں تباہی پھیلی ہوئی تھی اور ترقی یافتہ ممالک تک میں روزانہ ہزار ڈیڑھ ہزار کی شرح سے اموات ہورہی تھی، تب بھی اللہ نے تم پر خصوصی کرم کیا اور محض 30یا 40 ہزار تک اموات ہوسکیں۔ جبکہ پڑوسی ممالک میں یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔

سوال 5:  لیکن خدا  تو قادر مطلق ہے، ہر قانون سے بالاتر ہے، وہ چاہتا تو اتنی تباہی بھی نہ ہوتی ؟

جواب: بے شک تمہار ا خدا قادر مطلق ہے اور نیچر کے قوانین سے بالاتر ہے۔ لیکن اس کے باوجود نیچر کے قوانین اسی کے بنائے ہوئے قانون ہیں جن کی اپنی حکمت ہے۔ خدا بالعموم اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس تباہی کے پیچھے ایک بڑی حکمت ہے اگر تم سمجھو ۔

سوال :  آخر غریبوں کے ہزاروں مکانات گرجانے کے پیچھے کیا حکمت ہوسکتی ہے؟

جواب: تم ابھی تک اس غریبی کے دلفریب نعرے سے باہر نہیں نکلے۔ جان لو، اس تباہی میں ایک سبق ہے ، ایک وارننگ ہے اور ایک موقع۔ سبق وہی پرانا ہے جو 2010 میں دیا گیا  لیکن تم نے اسے بھلادیا اور اس سے کوئی نصیحت حاصل نہ کی۔ وارننگ تمہارے اجتماعی اور انفرادی اخلاقی انحطاط کی ہے جس کا شکار امیرو غریب دونوں ہیں۔

سوال 6:  وہ کون سے اخلاقی جرائم ہیں جن کی وجہ سے یہ آفتیں آتی ہیں؟ کیا یہ سب کچھ عریانی و فحاشی، سود ، بے پردگی اور نمازیں چھوڑنے کی  بنا پر ہوتا ہے؟

جواب: ۔ عریانی ، فحاشی، سود اور عبادات سے روگردانی کا اپنا ایک محل ہے لیکن ان کا اس وقت زیر بحث سیلاب سے کوئی تعلق نہیں ۔ دیکھا جائے تو مغربی اقوام بظاہر ان تمام جرائم میں ملوث ہیں لیکن وہاں تو اس قسم کی تباہی نہیں آتی۔ ہر قدرتی آفت کے کچھ مادی اسباب ہوتے ہیں اور کچھ اخلاقی۔ وہ اخلاقی اسباب کسی نہ کسی طرح ان مادی اسباب کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور یوں نظام الٰہی کسی قوم پر آفت لانے یا ٹالنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔

سوال7:  وہ کون سے مادی و اخلاقی اسباب ہیں کہ پاکستان پر یہ آفت آئی ؟

جواب : حالیہ سیلاب کے مادی اسباب میں  گلوبل وارمنگ، ڈیمز نہ بنانا، جنگلات کثرت سے کاٹ دینا، پانی کی نکاسی کا نظام نہ بنانا اور نکاسی کے نظام پر تجاوزات کھڑی کردینا شامل ہیں۔ انہی مادی اسباب کے ساتھ چند اخلاقی پہلو ہیں جو اس قوم نے یکسر نظر انداز کردیے۔ سب سے پہلے نااہلی۔ پاکستان گلوبل وارمنگ سے  سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں  شامل ہے لیکن   اس سے نبٹنے والے ادارے نے کیا پلاننگ کی؟ محکمہ جنگلات نے کیوں درخت کاٹنے سے نہیں روکا، ڈیمز بنانے والے اداروں نے کیا کیا؟تجاوزات قائم کس نے کرنے دیں؟ ڈیساسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تنخواہ لینے کے علاوہ کیا کیا؟

اس کی ایک  اور وجہ لالچ ہے ۔ لالچ سے مراد   دولت، اشیاء ،شہرت یا طاقت حاصل کرنے کی شدید  اور خود غرضانہ خواہش  ہے  ۔ جو لوگ کچھ کرسکتے تھے ان کی اکثریت کو بھی لالچ نے انہیں  اندھا کردیا اور انہوں نے اپنے ذاتی فائدے کے عوض   روک تھام نہ کی  اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ان تمام اداروں میں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ عوام ہیں یا ان کے نمائیندے۔ ان کی ناہلی عوام کی نااہلی ہے۔ یہ نااہلی  اور لالچ ایک بہت بڑی اخلاقی کوتاہی اور جرم ہے جس کی یہ سزا ہے۔

سوال 8: پھر قوم کو کیا کرے ؟

جواب : قوم کو چاہیے کہ وہ اس ناہلی اور لالچ پر آواز اٹھائیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی اکثریت خود اسی ناہلی کا شکار ہے اسی لیے وہ بزدلی کا شکار ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتی اور یوں مفاد پرست لوگ اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب جھوٹی انا اور تکبر نے پوری قوم کو ناقابل اصلاح بنادیا ہے۔ ہر دوسرا فرد اور ادارہ  اپنی نااہلی کے باوجود خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور اپنے اوپر ہونے والی مثبت تنقید کو بھی    منفی انداز میں لے کر دوسروں  کی غلطیاں ڈھونڈنے اور ان پر جوابی الزام تراشیاں شروع کردیتا ہے۔ نتیجتا بات وہیں پر رہ جاتی ہے جہاں ہوتی ہے۔

یوں تواخلاقی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے جن میں جھوٹ، دھوکہ بازی، فریب، جنسی جرائم، خودغرضی  وغیرہ شامل ہیں لیکن  چار بڑے جرائم ہیں جو اس سیلاب سے براہ راست منسلک ہیں اور  جن میں پاکستان کی 75 فی صد آبادی  ملوث ہے۔ یہ چار جرائم ہیں نااہلی ،  بزدلی، لالچ اور  جھوٹی انا۔یہ چاروں جرائم مل کر ایک اسکوائر کاز بناتے ہیں اور یوں پاکستانی قوم ایک بڑے اخلاقی جرم میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

سوال9: کیا یہ سیلاب عذاب ہے یا وارننگ؟

جواب: یہ صرف الفاظ کی ہیرا پھیری ہے۔ البتہ ہمارے ہاں عذاب سے متعلق یہ غلط تصور ہے کہ عذاب کسی بھی شخص پر صرف انہی گناہوں کی صورت میں آتا ہے جو اس نے خود کیے ہوتے ہیں۔ چنانچہ عذاب کہنے سے یوں لگتا ہے کہ سیلاب سے اجڑنے والے لوگوں کے گناہ اتنے زیادہ تھے کہ نظام الٰہی نے انہیں براہ راست سزا دی۔ بات یوں ہے کہ نظام الٰہی اجتماعی معاملات میں قوم کو ایک یونٹ کے طور پر لیتا ہے اور جب اس قوم پر ضرب پڑتی ہے تو اس کا وہی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جو عالم اسباب میں کمزور ہوتاہے۔ بہرحال ، یہ سیلاب پوری قوم کے لیے ایک وارننگ ہے کہ وہ مادی و اخلاقی اسباب تلاش کرکے آگے اس کی روک تھام کے لیے کام کریں ۔ اگر ایسا کرلیا تو اس تباہی میں جو کچھ بھی کھویا ہے اس سے کئی گنا دوبارہ مل جائے گا ور مستقبل میں اس قسم کی مزید آفتوں سے بھی بچ جاوگے۔

سوال 10: لیکن اس آفت کے موقع پر قوم نے کھل کر یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے  اور دل کھول کر متاثرین کی مدد کی ہے؟

جواب:  یہ واقعی ایک لائق تحسین بات ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے تمہاری قوم ایک جذباتی عدم تواز کی شکار قوم ہے۔ جب جذبات کا لاوا ابلتا ہے تو جان، مال سب حاضر کردیتی ہے۔ لیکن جب یہ جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو وہی ڈھاک کے تین پات۔ ضرورت اس بات کی ہے مریض کی صرف جان ہی نہ بچائی جائے بلکہ اس جان بچانے کے بعد آئیندہ مرض کی روک تھام کے لیے لانگ ٹر م اقدام کرنا بھی ضروری ہے ۔

سوال 11:  یہ تو بڑ ے فلسفیانہ معاملات ہیں۔ سادہ الفاظ میں ایک عام انسان کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: جو اپنی ملازمت، کاروبار کے جو بھی فرائض ہیں انہیں روزہ اورنماز سے زیادہ فرض سمجھ کر ادا کرے۔ اگر کسی کام کی اہلیت نہیں تو اس کی اہلیت تعلیم اور ٹریننگ سے دور کرے ، ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر جس ادارے میں کام کرتا ہے اس  کے مفاد کو عزیز تر رکھے ،  بزدلی ، لالچ  اور جھوٹی انا سے گریز کرے۔ لالچی اور طاقت ور طبقات کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجائے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے اسے بھی آسانیاں مل جائیں گی۔

سوال 12:  آپ نے نماز ، روزے اور دیگر عبادات کا ذکر نہیں کیا؟

جواب:  عبادت کے دو پہلو ہیں ، ایک بندے کا خدا سے تعلق اور ایک بندے کا مخلوق سے تعلق۔ نیچر کے ری ایکشن کا اصل فوکس اس پر ہوتا ہے کہ بندے نے باقی بندوں سے کیا معاملات رکھے جبکہ بندے اور خدا کا تعلق پرائیوٹ ہے جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے۔

تحریر: ڈاکٹر محمد عقیل

قربانی آج کے دور میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 انسان کی تاریخ کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا پتھر کا زمانہ، دوسرا زرعی دور، تیسرا انڈسٹریل ایج اور چوتھا انفارمیشن ایج۔ جب انسان نے پتھر کے دور سے زرعی ایج(Agriculture Age)  میں قدم رکھا تو  اس زرعی دور کی بنیاد دو اہم ستونوں  پر تھی۔ ایک زمین پر کاشتکاری کے ذریعے  غذا حاصل کرنے کا فن  اور دوسرا مویشی یعنی پالتو جانوروں کو نشونما دے کر  غذا اور سواری کا بندوبست کرنے کا ہنر۔ مویشی جن میں گائے،  بکری ، مرغی ، اونٹ ، بھیڑ وغیرہ شامل تھیں ، ان کے ذریعے دودھ، انڈے اور گوشت  حاصل کیا جاتا تھا ۔ دوسری جانب   بیل، گائے، اونٹ، گھوڑے، گدھے، خچر وغیرہ    جیسے طاقتور  مویشیوں کو سواری  ، کھیتی باڑی اور اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ یوں بالواسطہ طور پر دولت زرعی معاشرے میں سونا، چاندی ، دینار یا کاغذ کی کرنسی کی بجائے ان مویشیوں اور اناج کی صورت میں ذخیرہ ہوتی تھی ۔ جس کے پاس زیادہ زمینیں ، فصل یا  مویشی کثرت سے  ہوتے تھے وہی اس معاشرے میں ایک امیر اور شان و شوکت والا  شخص کہلاتا تھا۔ اس کی  ایک مثال حضرت ایوب علیہ السلام کی ہے جن کے بارے میں بائبل  کتاب ایوب میں مذکور ہے کہ  حضرت ایوب سات ہزار بھیڑوں  تین ہزار اونٹوں  پانچ سو جوڑے  بیلوں  اور پانچ سو گدھیوں  کے  مالک تھے۔ ان کے  پاس بہت سے  خادم تھے۔ ایوب مشرق کے سب سے  زیادہ دولتمند شخص تھے۔

انسانی تاریخ کی   سب سے پہلی  مذہبی قربانی کا ذکر ہابیل اور قابیل کی داستان کی صورت میں ملتا ہے جو بائبل اور قرآن دونوں میں مذکور ہے۔ ہابیل قربانی کے لیے پہلوٹھی کی بھیڑ لایا اور قابیل کچھ اناج لے کر آیا۔اس سے علم ہوتا ہے کہ قربانی کا یہ واقعہ زرعی دورکی ابتدا  میں پیش آیا جب انسان مویشی اور اناج کا استعمال سیکھ چکا تھا۔  ہابیل کی قربانی اس کی نیت میں اخلاص بنا پر قبول ہوئی اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی۔ قربانی کی قبولیت اس بنا پر نہیں تھی  کہ بھیڑ خدا کے نزدیک کوئی مقبول شے اور اناج غیر مقبول تھا،  بلکہ واحد وجہ تقوی تھی۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ قربانی کے لیے خدا کے نزدیک کسی مخصوص شے، فارم،  رسم یا پروسیجر کے تحت کرنا لازمی نہیں ، بس نیت کا  خالص ہونا لازمی ہے۔

قربانی کی رسم دور ابراہیمی میں اپنے منتہائے کمال کو پہنچی  جب حضرت ابراہیم  نے اپنے ایک خواب  کو حکم خداوندی  سمجھ کر اپنے اکلوتےبیٹے کو قربان کرنے کی کوشش کی ۔ عین وقت پر خدا نے آپ کو بیٹے کی قربانی سے  روک دیا اوراس کی بجائے ایک بھیڑ کو ذبح کرنے کا حکم دیا  ۔ یوں مویشیوں کی  قربانی ابراہیم  علیہ السلام کے ماننے والوں میں ایک روایت کے طور پر جاری ہوگئی۔ اس سے قبل قدیم مشرکانہ مذاہب میں دیوتاوں کے نام پر بچوں اور خواتین تک کو قربان کردیا جاتا تھا جس کا مقصد پنڈتوں اور پجاریو ں کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل تھا۔ اگر معبود کے نام پر انسانوں کو ذبح کرنا خدا کو واقعی مطلوب اور مرغوب تھا تو سب سے پہلے تو پنڈت اور پروہت ہی خود کو قربانی کے لیے پیش کرتے لیکن معاملہ اس کے برعکس رہا۔ بہرحال ، حضرت ابراہیم  کی قربانی کے ذریعے قربانی کی اسپرٹ کو اللہ کے لیے برقرار رکھا گیا جس میں  انسانی ذبح کو  ممنوع  قرار دے کر قربانی کے عمل کو واضح طور پر  مویشیوں تک محدود کردیا گیا۔

حضرت ابراہیم کے بعد ان کی نسل  کی ایک شاخ یعنی بنی اسرائیل میں  قربانی کی رسم  جاری رہی کہ تاکہ ذبیحے کا  گوشت صحرائے سینا میں  موجود مہاجرین بالخصوص غرباء  کے لیے غذا کا ذریعہ بنا رہے۔ بعد میں بھی یہ روایت یروشلم میں اسرائیلی سلطنت کے قیام  اور اس کے بعد جاری رہی۔ حضرت ابراہیم کی  نسل کی دوسری شاخ بنی اسماعیل کے ہاں بھی قربانی کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور جانوروں کو مختلف مواقع پر ذبح کرکے غریبوں میں تقسیم کاجاتا تھا۔ البتہ اس کا مقصد مخصوص بتوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا۔

نبی کریم کے دور میں بھی قربانی  کو بالخصوص حج  اور عمرے کے ساتھ منسلک کردیا گیا تاکہ دودراز علاقوں سے حج و عمرے کے لیے آنے والے زائرین کی غذا کا  بندوبست ہوتا رہے اور لوگ اللہ کی خوش نودی کی خاطر ہدی کے جانور لوگوں کی فلاح کے لیے قربان کرتے رہیں۔ مکے کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی  اللہ کے نام پر قربانی کے عمل کو عیدالاضحی کے ذریعے ایک سنت کے طور پر جاری کیا گیا ۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عیدالاضحی کی قربانی کا  غور سے جائزہ لیں  تو اس   کے پیچھے کئی اہم مقاصد پوشیدہ تھے۔

سب سے بڑا مقصد اللہ کی رضا کا حصول تھا ۔حضرت ابراہیم نے جس سپرٹ کے ساتھ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کے حضور قربانی کے لیے پیش کیا، اسی جذبے کے تحت  مسلمان بھی جانور قربان کرکے اس وعدے کا علامتی اظہار کرتے تھے کہ وہ وقت پڑنے پر  اللہ کی رضا کے لیے  اپنی جان اور مال کو قربان کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔  جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ اس زمانے میں لین دین  کرنسی یا دینار  کے ذریعے بہت کم ہوتا تھا اور جانور  اس معاشرے میں  اثاثے کا درجہ رکھتےتھے ۔ اسی بنا پر زکوٰۃ بھی دینار یا سکوں کی بجائے براہ راست جانوروں کی شکل میں وصول کی جاتی تھی۔یہ جانور نہ صرف غذا اور سواری کے کام آتے بلکہ امراء کی شان و شوکت کا ذریعہ تھے۔ خصوصی طور پر اونٹ کو دیکھا جائے تو اس کی حیثیت آج کے دور میں ایک کار  یا ٹرانسپورٹ  کی طرح تھی جو نہ صرف  سواری کے کام آتی ہے بلکہ شان و شوکت کا بھی ذریعہ ہے۔ اونٹ    اور دیگر مویشی اللہ کی راہ میں ذبح کرنا ایک بڑی قربانی تھی جس کے ذریعے انسان نہ صرف اپنا ایک قیمتی اثاثہ (Asset)  بلکہ شان و شوکت بھی اللہ کی راہ میں قربان کررہا ہوتا تھا۔ اس نفس کشی کے ذریعے تقوی کا حصول ہی قربانی کا اصل مقصد تھا کیونکہ قرآن نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ  گوشت اور خون تو اللہ تک پہنچتا ہی نہیں۔

دوسرا اہم مقصد راہ میں  گوشت کی صورت میں انفاق  اور لوگو ں کی فلاح کا تھا۔ کم و بیش تمام ہی مذاہب میں قربانی کا تصور بعض اختلافات کے ساتھ موجود رہا۔ ان جانوروں کو خدا کے نام پر ذبح کرنے کا اصل  مقصد یہی تھا کہ وہ دولت جو مخصوص ہاتھوں میں مرتکز ہورہی ہے اسے سوسائیٹی کے غریب اور نادار طبقے میں گھمایا جائے تاکہ وہ بھی اس سے مستفید ہوں۔

جانور ذبح کرنے کے بعد اس کا گوشت اس زمانے میں طویل عرصے تک محفوظ نہیں کیا جاسکتا تھا اور لامحالہ اسے کچھ دنوں میں یا تو خود استعمال کرنا ہوتا یا تقسیم کرنا لازمی  ہوتا تھا۔ اس تقسیم  سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے لوگ غریب اور نادار ہی ہوتے تھے۔ گویا یہ  جانوروں کے انفاق کا ایک طریقہ تھا جس سے جانوروں کی صورت میں جمع کی گئی دولت کو غرباء تک پہنچانے کا ایک معاشی نظا م تھا۔ ان جانوروں کی کھالیں لباس وغیرہ میں استعمال کی جاتی تھیں۔ جانوروں کے کثیر تعداد میں ذبح ہونے کے بعد اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اگلے سال  بریڈنگ کا عمل زیادہ تیزی سے کیا جاتااور یوں جانور وں کی کثیر تعداد دوبارہ مارکیٹ میں دستیاب ہوتی تھی۔  مختصرا یہ کہ قربانی کا مقصد اپنا مال جو جانوروں کی صورت میں ذخیرہ ہوتی تھی، اسے   قربان کرکے مخلوق کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ یہ ایک بہت ہی موثر تدبیر تھی جو جانوروں کی صورت میں جمع شدہ دولت (Circulation of Animal Wealth)کی معاشرے میں گردش کا ایک اہم ذریعہ تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے جتنے بھی مذاہب کا ریکارڈ ہمیں ملتا ہے ان  سب کا تعلق زرعی دور سے ہے۔اسی بنا پر کم و بیش ہر مذہب میں یہ قربانی کسی نہ کسی صورت میں موجود نظر آتی ہے۔  البتہ آ ج کا دور زرعی دور نہیں بلکہ انڈسٹریل  اور انفارمشین ایج ہے۔ آج کے دور میں اب دولت جانوروں کی صورت میں ذخیرہ نہیں ہوتی بلکہ یہ کرنسی، بنک اکاونٹ ، مکان ، زمین،  فیکٹری، بزنس ،سونا اور دیگر اثاثوں کی صورت میں ذخیرہ ہوتی ہے۔ یعنی جو حیثیت کل ان مویشیوں کو حاصل تھی وہی آج  کے دور میں کرنسی، بنک اکاونٹ، فیکٹری اور کاروبار کو حاصل ہے۔

اگر ہم قدیم زمانے کے مویشیوں کا آج کے اثاثوں سے موازنہ کریں  تو اونٹ گویا آج کی کار یا ٹرانسپورٹ  ہے جس کے ذریعے انسان اور اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ اونٹنی ، گائے، بکری، مرغی وغیرہ  کی حیثیت  ایک چھوٹی سے فیکٹری کی ہے جو دودھ ، دہی، انڈے اور گوشت کی پیداوار میں معاون ہوتی ہے۔ بیل  یا گائے کی حیثیت فیکٹر آف پراڈکشن یا ایک ایسی مشین کی ہے جو نہ صرف ہل چلانے میں کام آتی ہے بلکہ اس سے جانوروں کی بریڈنگ کرکے  دولت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج کے دور میں  دولت کی سرکولیشن  اور اللہ کی رضا کے لیے جانور خرید کر قربان کرنا لازم نہیں ۔ آج کے دور میں اللہ کی قربت کے لیے  غریبوں کی فلاح کے بہت سے دیگر آپشنز موجود ہیں ۔ ان میں  رقم کے ذریعے براہ راست  غریبوں کی مدد کرنا ، ملازمت کے لیے سکلز پیدا  کرنا، ان کی صحت پر خرچ کرنا ، ان کے لیے راشن کا مستقل بندوبست کرنا، رہاِئش فراہم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ ہمارے نزدیک آج کے دور میں قربانی کا عمل  اللہ کی رضا کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کسی بھی غریب کی کوئی ضرورت پورا کرنے سے مکمل ہوجاتا ہے۔ رقم کا تعین ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق کرسکتا ہے۔

اس نقطہ نظر پر ایک اعتراض یہ وارد ہوسکتا ہے کہ جانوروں کی قربانی سے ان غریب لوگوں کی مدد ہوجاتی ہے جو جانوروں کو پالتے، ذبح کرتے  اور پھر منافع حاصل کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جو لوگ جانوروں کو پالتے اور قربانی کے سیزن میں بیچتے ہیں وہ کوئی غریب لوگ نہیں ہوتے۔ اگر غریب ہوتے تو ان جانوروں  کو  پالنے کا بندوبست نہ کرپاتے۔ ان میں سے اکثر  درحقیقت بیوپاری  یا وہ مڈل مین ہوتے ہیں جو اس کاروبار میں باقاعدہ انوسٹمنٹ کرتے اور قربانی کے بعد اپنا منافع کھرا کرکے  اپنا معیار زندگی بہتر بناتے ہیں۔ دوسری جانب اصل مستحقین جو جانوروں کو پالتے ہیں وہ اس منافع سے بالعموم محروم ہی معلوم ہوتے ہیں۔

ایک اور اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ ان دنوں میں ان غرباء تک گوشت پہنچ جاتا ہے جنہیں سار ا سال گوشت نہیں ملتا۔ یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ غریب کا اصل مسئلہ گوشت  کا حصول نہیں بلکہ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل ہے۔ٹرائی بیون  کے مطابق پاکستان میں سن 2021 میں کم  و بیش ساڑھے چار سو ارب روپے قربانی کے عمل پر خرچ کیے گئے [1]۔   اس سے بے شک ایک معاشی سرگرمی نے جنم لیا لیکن غربت کے خاتمے  اور غریبوں پر کوئی دیرپا اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ جیسا کہ  پائیڈ کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ قربانی بلاشبہ معاشی سرگرمیوں  کا باعث بنتی ہے لیکن   یہ ایک عارضی عمل ہوتا ہے اور اس سے معیشت پر دیرپا اور گہرے اثرات  مرتب  نہیں ہوتے ہیں[2]۔

   اس رقم کا موازنہ اگر ہم صحت اور تعلیم  پر خرچ کی جانے والی رقم سے کریں تو حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ سال 2021میں قربانی  کے ذریعے پیدا ہونے والی معاشی سرگرمیاں لگ بھگ  ساڑھے چار سو بلین روپے ہوئی   ہیں ۔ پورے پاکستان کے وفاقی اور تمام صوبوں کے بجٹ کو جمع کرلیا جائے تو  تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم   کا رواں سا ل کا تخمینہ کم و بیش 1212 بلین روپے ہے ۔ گویا قربانی کی رقم سے  پورے پاکستان میں سرکاری ایجوکیشن کے اخراجات کا ایک تہائی حصہ فائنانس کیا جاسکتا ہے۔  اسی طرح اگر ہم وفاق اور چاروں  صوبوں کے صحت پر خرچ ہونے والے اخراجات کو جمع کریں تو یہ  کم وبیش 463 بلین روپے بنتے ہیں ۔ گویا قربانی کی رقم سے کم و بیش  صحت کے تمام  سرکاری اخراجات  پورے کیے جاسکتے ہیں۔

اگر قربانی پر خرچ ہونے والے اخراجات  جو ساڑھے چار سو  بلین روپے ہیں ،انہیں  تعلیم ، صحت، اسکلز ڈیولپمنٹ  یا روزگار کی فراہمی کے لیے مختص کریں تو   مستقل بنیادوں پر غریبوں کے  راشن کا بندوبست ہوسکتا،  لاکھوں کے علاج کے لیے  وسائل مہیا کیے جاسکتے  اور غریب بچوں  ایجوکیشن   کے وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں  کمیونٹیز ، این جی اوز ، برادری اور خاندا ن سطح پر بھی  قربانی کی رقم جمع کی جاسکتی اور تعلیم، روزگار اور صحت جیسے معاملات  پر یہ رقم خرچ کرکے غریبوں کی معاشی حالت کو لانگ ٹرم بنیادوں پر بدلا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی فلاح کا یہ  کام انفرادی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے ۔

اس نقطہ نظر پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ قربانی  ایک عبادت کے جسے رسم کے طور پر اللہ کی راہ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ قربانی کا اصل مقصد جو قرآن میں بیان ہوا ہے وہ تقوی کا حصول ہے اور خون اور گوشت تو اللہ کے پاس نہیں پہنچتا۔ نیز ہابیل اور قابیل کی قربانی سے بھی یہ بات ظاہر ہے کہ خدا کے نزدیک قربانی  کسی مخصوص ہیت میں ہونی لازمی نہیں۔ اس لیے اس رقم کو کسی بھی غریب کی بالواسطہ یا براہ راست مدد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کا مقصد تقوی کا حصول ہی ہو تو اللہ کے نزدیک یہ بھی قابل قبول عمل ہے۔ اللہ تو محض ناخن کاٹنے پر قربانی کا اجر دے دیتا ہے تو رقم خرچ کرنے پر کیوں وہ کسی کا اجر روکے گا۔

البتہ ان دلائل کے باوجود اگر کوئی شخص قربانی کو مروجہ طریقہ ہی سے کرنا  پسند کرتا ہے تو اسے اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ ایسا کرے ۔ البتہ یہ بات یا د رکھنی چاہیے کہ قربانی کا یہ عمل مسلمانوں میں ایک سنت کے طور پر جاری ہے۔ ماسوائے حنفی مسلک کے  کم و بیش تمام مسالک کے ہاں قربانی ایک آپشنل عبادت ہے۔   اسی طرح قربانی کا اصل مقصد ذہن میں رکھنا چاہیے اور وہ ہے تقوی کا حصول۔ جدید شہری زندگی میں جانوروں کو گھروں ، گلی ، محلے  میں باندھنا اور ذبح کرنا کئی پہلووں سے قربانی کی روح اور تقوی کے منافی ہے۔ جانور کو راستے میں باندھ کر راستے بلاک کرنا، محلے میں گندگی پھیلانا،  خون گلی میں بہا کر  مختلف بیکٹیریا اور وائرس کی پیدائش کا سبب بننا یا خون اور چکنائی سے سیوریج کے نظام کو تباہ کرنا  خدا کی رضا کی بجائے اس کی ناراضگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور اس سے لوگوں کی اجتماعی فلاح کی بجائے انہیں ایذا پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جو قربانی کرنا ہی چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ شہروں قربانی مخصوص سلاٹر ہاوس ہی میں کی جائے جو شہر سے دور ہوں۔

آخر میں یہی عرض ہے کہ یہ ایک نقطہ نظر ہے جس کو دلائل کے ساتھ رد یا قبول کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس کی بنیاد پر  روایتی طور پر قربانی کا فریضہ ادا کرنے والو ں کی تضحیک یا تقصیر کی کوئی  گنجائش نہیں۔ انہیں حق حاصل ہے کہ جس رائے کو وہ درست سمجھتے ہوں اس پر عمل کریں۔ اسی طرح جو لوگ جانور کی قربانی کی بجائے اس رقم کو کسی اور فلاحی کاموں میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ، ان پر بھی کسی طعنے ، تشنیع اور الزامات کی کوئی گنجائش نہیں۔ دونوں اپنی قربانی خدا کے حضور پیش کررہے ہیں ، اب یہ خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے کہ وہ کس کی قربانی قبول کرے ۔

تحریر : ڈاکٹر محمد عقیل


[1] https://tribune.com.pk/story/2311908/rs450b-spent-on-eid-this-year

[2] https://www.independenturdu.com/node/42421

فرضی دشمن

میں پارک میں واک کررہا تھا کہ اچانک محسوس ہوا کوئی میرے ساتھ ساتھ دوڑ رہا ہے۔ میں نے اگنور کیا لیکن کسی کے دوڑنے کی آواز آتی رہی۔ میں نے اسپیڈ تیز کردی تو لگا اس نے بھی اپنی رفتار بڑھادی ہے ۔کچھ دیر بعد میں نے اپنی رفتار کم کردی تو محسوس ہوا کہ اس بھی آہستہ بھاگنا شروع کردیا ہے۔ اب میں سوچنے لگا کہ عجیب آدمی ہے، یا تو آگے نکل جائے یا پیچھے رہ جائے، ساتھ ساتھ کیوں بھاگ رہا ہے۔میں اچانک رک گیا ، تو یوں محسوس ہوا وہ بھی رک گیا ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر  جاگنگ ٹریک کا جائزہ لیا تو  ارد گرد کوئی بھی نہ تھا۔

کچھ دیر کھڑا میں سوچنے لگا کہ اگر کوئی نہیں ہے تو ساتھ کون دوڑ رہا تھا۔ پھر میں نے آواز پر غور کیا تو وہ کچھ چھن چھن کی آواز تھی ۔ میں نے اپنی جیب پر ہاتھ مارا تو گاڑی کی چابیاں تھیں جو میرے بھاگنے کی وجہ سے بج رہی تھیں۔ ان کی ایکو کچھ اس قسم کی  آواز پیدا کررہی تھی کہ کوئی  پیچھے چل رہا ہے۔

ہماری زندگی کے اکثر معاملات اسی قسم کے وہم  اور شک سے آراستہ ہوتے ہیں جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہمارے  پیچھے لگا ہوا ہے۔ کبھی ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمار ے کسی  رشتہ  دار نے ہمیں چڑانے کے لیے  اچھا لباس پہنا ہے ، کبھی لگتا ہے کسی ساس یا بہو نے ہمیں تنگ کرنے کے لیے برتن توڑا ہے، کبھی محسوس ہوتا ہے کسی دوست نے جان بوجھ کر فون نہیں اٹھایا، کبھی لگتا ہے دفتر کے کسی کولیگ نے سازش کی بنا پر  یہ مذاق کیا اور کبھی یہ لگتا ہے ہمارے کسی ساتھی نے ہمیں نیچا دکھانے کے لیے اپنی بات اونچی آواز میں کہی۔

یاد رکھیے ، ان میں سے نوے فی صد شکوک محض وہم ہوتے ہیں اور یہ ہمارے دماغ  کی جیب میں رکھی وسوسوں کی چابیوں کی بازگشت ہوتے ہیں۔ ہم   اپنے ہی وجود کی آوازوں سے دھوکا کھاجاتے اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ فلاں شخص ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ جب کبھی ایسا محسوس ہو تو ان آوازوں کو   نظر انداز کرکے آگےبڑھ جائیں   اور اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک پیچھا کرنے والے شخص کو وہم نہیں بلکہ یقین کی آنکھ سے نہ  دیکھ لیں۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو ہم ایک ایسے  فرضی دشمن کو شکست دینے کے لیے دوڑ دوڑ کر ہلکان ہوجائیں گے جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔

ڈاکٹر محمد عقیل

نام نہاد انفارمیشن ایج

اس نام نہاد انفارمیشن ایج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر قسم کی معلومات کا ایک انبار ہے، جس میں سے درست علم اخذ کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ مثال کے طور پر میڈیکل کی دنیا میں کرونا وائرس کی ویکسین پر موجود یہ بھی موجود ہے کہ یہ ساٹھ ستر فی صد تک درست نتائج دیتا ہے تو یہ بھی گردش کررہا ہے کہ کرونا ویکسین لگانے والے دوسا ل میں مرجائیں گے۔ سیاست میں کسی شخصیت کو شیطان ثابت کرنے کا مواد بھی ہے اور اسی شخصیت کو فرشتے کے روپ میں دکھائی جانے والی اطلاعات بھی ہیں۔ مذہبی دنیا میں خدا کے حق میں بھی دلائل ہیں تو خدا کی رد میں بھی معلومات ہیں۔ یہ معاملہ کم و بیش ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہے جس کی بنا پر آج کا انسان ایک عجیب کنفیوژن کا شکار ہے۔ اس کاسادہ حل یہ ہے کہ جن معاملہ میں کوئی فیصلہ لینا ہو تو اس شعبے کی معلومات کو مستند حوالے کے ساتھ دیکھا جائے اور پھر ان کو عقل ،فطرت اور اخلاقیات کی روشنی میں پرکھا جائے۔ جب تک وہ معلومات مستند ذرائع سے ثابت نہ ہوں، ان پر نہ یقین کیا جائے اور نہ ہی ان کو محض سنسنی اور ریٹنگ کی خاطر آگے پھیلایا جائے۔ نیز ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کی بجائے محض اس وقت رائے قائم کی جائے جب اس کی ضرورت ہو۔

ڈاکٹر محمد عقیل

سلام ہو یوسف پر

سلام ہو یوسف پر

سورہ یوسف نظام الٰہی کو کے  بعض اہم پہلووں کو سمجھنے لیے ایک بہترین سورۃ ہے۔ یہ  بتاتی ہے کہ حسد کرنے والے بھائی  خواہ کنویں  کی پستیوں ہی میں کیوں نہ پھینک دیں، رب کی قدرت  بلند حوصلے والے کو بلندیاں عطا کردیتی ہے۔ کوئی حسین  عورت کتنے پرفریب چالیں کیوں نہ چلے، رب کی برھان  پاکیزہ رہنے کی کوشش کرنے والے کو بچالیتی ہے۔ شہر کی  سب عورتیں مل کر ایک نوجوان کو ورغلانے کی کوشش کریں، حقیقی محبوب کی محبت      نفس کی محبتوں سے آزاد کردیتی ہے۔ ایک بچہ  کئی دہائیوں   تک اپنے با پ سے جدا رہے، رب کے شکر گذار ی شکوہ زبان پر لانے نہیں دیتی۔ خواہ کسی  کے کردار پر کتنے ہی جھوٹے داغ کیوں نہ لگادیے جائیں ، رب کی تدبیر اپنے چنے  ہوئے بندے کو تمام الزاموں سے بری کرکے عزت کا مقام عطا کردیتی ہے۔خواہ کوئی  پیغمبر زادہ   عزیز مصر کا غلام ہی کیوں نہ بن  جائے ، مشیت الٰہی اس محسن کو  غلامی سے نکال کر عزیز مصر  بنادیتی ہے ۔

یوسف  نے ہر موقع پر کمال کی صفات کا مظاہرہ کیا۔ وہ کنویں میں پھینکے جانے بعد مایوس نہ ہوئے  اور انہیں اپنے اس خواب کی تعبیر پر یقین رہا جو ان کے والد نے بتائی تھی۔ وہ  عزیز مصر کی غلامی میں رہے لیکن  حقیقی غلامی صرف اپنے رب کی قبول کی ۔ عین نوجوانی میں مصر کی حسین ترین شخصیت ہونے کے باوجود کبھی نفس کی بات پر کان نہ دھرا اور اس کی خواہشات کو شکست دی۔ اس پاکیزگی کے باوجود انکساری کا یہ عالم کہ اس کا سار ا  کریڈٹ اپنے رب کو دے دیا۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرلیں لیکن عورتوں کے دام فریب میں نہ آئے۔ قید کی حالت میں بھی خدا کی توحید کا پیغام پہنچانے سے غافل نہ رہے۔شاہ مصر کی جانب سے  آزادی کا پروانہ ملنے کے باوجود  اس وقت تک  قید خانے سے باہر نہ آئے جب تک عورتوں کے لگائے ہوئے جھوٹے الزام سے بریت حاصل نہ کرلی۔عزیز مصر اور ایک عظیم ایڈمنٹریٹر کے طور مصر اور گردو نواح کے قحط زدہ علاقوں کو خوراک کی فراہمی کا شاندار انتظام کیا لیکن کبھی تکبر میں مبتلا نہیں ہوئے اور ہمیشہ  اس کامیابی کا کریڈٹ اپنے پروردگار کو دیا۔جب وہی بھائی سامنے آئے جنہوں نے انہیں کنویں کی تاریکیوں میں دھکیلا تھا تو اپنی ذات کے لیے کوئی بدلہ نہ لیا اور بس یہ کہہ دیا ” آج تم پر  کوئی الزام نہیں ، اللہ تمہارے اس گناہ کی مغفرت کرے” ۔    

آج کے انسان  کے لیے حضرت یوسف کا قصہ واقعی ایک مشعل راہ ہے۔ان کی عزم ہمتی، مسقتل مزاجی، توکل ، تفویض ، رضا، بندگی، پاکیزگی، تقوی، رحم دلی، صلہ رحمی، ایڈمنسٹریشن ، لیڈرشپ، عجزو انکساری اور سادہ دلی وہ صفات ہیں جو اس سورہ کا پیغام ہیں۔ سلام ہو یوسف پر  ان صفات کی بنا پر جو ہم نے سمجھیں اور ان معاملات کی بنا پر جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان پوشید ہ ہیں۔

ڈاکٹر محمد عقیل

ایم ٹی جے کا ازار بند

ایم ٹی جے(مولانا طارق جمیل )برانڈ پر  کو اس وقت کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ ایک ازار بند  فیس بکی مارکیٹ میں گردش کررہا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے ہے۔ اس پر ایم ٹی جےکو سخت مخالفت کا سامنا ہے کہ برانڈ کے نام پر وہ بھی دیگر تاجروں کی طرح عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب مولاناکا حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ایم جی ٹی یعنی مولانا طارق جمیل کے برانڈ کی نہیں بلکہ جے ڈاٹ کی ہے۔      ایک جانب مولانا سے مخالفین  ہیں جو  ہر صورت مولانا پر شدید تنقید کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب ان حامی لوگ ہیں جو ہر صورت مولانا کی جائز ناجائز بات کا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نیوٹرل لوگ ہیں اور اس شدید کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیا رائے اختیار کی جائے؟ آئیے مختصر اا س کنفیوژن کو دور کرتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ مولانا نے جس نیت سے ایم ٹی جے  کے برانڈ پر مبنی بزنس کھولا ہے  وہ  ان کے بقول یہ ہے کہ وہ مدارس اور دینی درسگاہوں کو چندے اور زکوٰۃ کے پیسے پر انحصار کرنے کی بجائے  خود انحصاری کا راستہ دکھانا چاہتے ہیں اور اس رقم کو مدارس کے نظام کو سپورٹ کرنے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ اگرمدرسے کے فارغ التحصیل طلبا دنیا کو امامت ، اور موذن کی خدمات دینے کے علاوہ دیگر کاروبار  اور خدمات میں بھی خود کو پیش کریں  تو یہ اپنے عمل سے جواچھے اخلاق  تبلیغ کرسکتے ہیں وہ محض تقریروں سے ممکن نہیں۔ نیز وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر دنیا کے طعنوں کا بھی جواب دے سکتے  اور روایتی  مذہبی  اداروں کی ساکھ بحال کرسکتے ہیں۔ ۔

دوسری بات یہ کہ مولانا پر یہ الزا م ہے کہ آ پ اپنے درسوں میں  ایک خاص حلیے کو فحاشی سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد چست پینٹ شرٹ، جینز، کالر والی شرٹ ، خواتین کے ٹخنوں سے اونچے ٹراوزر، مختصر دوپٹے، چست لباس  یا کسی بھی ایسے ملبوسات کو ان آوٹ لیٹس پر بیچنا قول اور فعل کا تضاد ہوسکتا ہے جو خود انہوں نے اپنے دروس میں براہ راست یا بالواسطہ ناجائز قرار دییے ہوں۔ اس لیے اس بارے میں احتیاط کی جائے۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے  چند  مخصوص ڈریس بیچنے سے کاروبار کس طرح چلے گا تو  اوپر بیان کی ہوئی بات یاد رکھنی چاہیے کہ مولانا کی نیت کاروبار کی نہیں بلکہ دین کی خدمت کی ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو اس   قسم کے کسی بھی ڈریس یا  پراڈکٹ بیچنے سے گریز کرنا ہوگا جو ان کی دانست میں غیر شرعی ہے۔ اس طرح وہ اپنے فالورز کو بھی ایک اچھی راہ دکھا ئیں گے۔

تیسر ا اعتراض ان کے برانڈ اور قیمتوں پر کیا جارہا ہے کہ تمام عمر وہ سادگی کی تعلیم دیتے رہے اور  اب قوم کو اسراف کی جانب  لے کر جارہے ہیں۔ مجھے علم نہیں ان کی پراڈکٹس کی کیا قیمت ہے لیکن ان کے شاگرد رشید کا برانڈ جے ڈاٹ مہنگے کپڑے بیچنے میں ید طولیٰ رکھتا ہےاور مولانا نے کبھی اپنے شاگرد کو اس با ت پر ٹوکا تک نہیں۔ اس سے ایک عام آدمی کو یہ تاثر جاتا ہے کہ اسراف کی باتیں شاید درس تک ہی محدود ہیں اور عملی زندگی میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن یہاں قصور اسراف کے تصور کو نہ سمجھنے کا ہے۔ خرچ کرنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ ضروریات پر خرچ کیا جائے جو فرض ہے، دوسرا یہ کہ سہولیات کے حصول کے لیے خرچ کیا جائے جو جائز ہے اور تیسرا یہ کہ تعشیات کے حصو ل پر خرچ کیا جائے جو بعض صورتوں میں حرام ہے بالخصوص اس وقت جب لوگ بھوکے مررہے ہیں۔ ایم  ٹی جے  کا کسی پراڈکٹ کو  عام کاروباری اداروں کی طرح ایک خاص حد سے زیادہ قیمت پر بیچنا اور اس کی تشہیر کرنا ان کے اپنے قول و فعل کے تضاد کی جانب نشاندہی کرسکتا  ہے جس میں وہ سادگی کی تعلیم دیتے اور اسراف کی مخالفت کرتے ہیں۔

اس موقع پر بعض حضرات یہ کہتے ہیں پاکستانی سوسائٹی میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ اگر مولانا کی نیت کو دوبارہ دیکھا جائے تو وہ تو اپنے فالوورز اور دینی طبقے کے لیے ایک ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہتے ہیں  ۔ چنانچہ ایم  ٹی جے کو چاہیے تھا کہ جس طرح مولانا نے خطابت میں ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا، اسی طرح کاروبار میں بھی سادگی پر مبنی ایک نیا  ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہیے تھا۔ نیز اکنامکس کے قانون کے تحت اگر تعیشات کی چیزوں کی قیمت کم ہوگی تو اس سے اتنی ہی ڈیمانڈ پیدا ہوگی اور منافع بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ اسی اصول کو مغرب میں آزمایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں منافع کا حصول محض قیمت میں اضافہ ہی سمجھا جاتا ہے۔

چوتھی بات یہ کہ وہ لو گ جنہیں کسی عالم دین کا بزنس میں ملوث ہونا غلط معلوم ہورہا ہے ، وہ غلط ہیں۔ ایک عالم دین اگردنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھے اور ملازمت اور بزنس کرتے ہوئے دین کا کام کرے تو وہ معاشرے کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔یعنی وہ یہ  بات علمی طور پر جان سکتا ہے کہ تاجر کیوں ناجائز منافع خوری کی طرف راغب ہوتا ہے، مڈل مین کس طرح قیمت بڑھادیتا ہے، سرکاری ادارے کسی طرح کاروبار میں روڑے اٹکاتے ہیں، ٹیکس چوری کیوں ہوتی ہے ، ملاوٹ کے کیا اسباب ہی، نورکری کے دوران کام چوری سے کس طرح بچا جاسکتا ہےوغیرہ۔ جب وہ ان مسائل کو قریب سے دیکھ کر دین کو پڑھے گا تو اجتہاد کے وہ نئے دروازے کھلیں گے جو لوگوں کی زندگیوں کے مسائل حل کریں گے اور فتوے کتابوں کی دنیا سے نکل کر عملی زندگی میں آجائیں گے۔  امام ابو حنیفہ کے سب سے زیادہ مقبول  فیقہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ ایک تاجر تھے اور زندگی کے مسائل قریب سے جانتے تھے۔

آخری بات، مولانا کے مخالفین سے گذارش ہے کہ ازار بند والی بات پر  بلاتحقیق پھبتی کسنا ، جگتیں مارنا  ایک مسلمان کو زیبا نہیں دیتا۔ "مسلمان ” پر زور دیتے ہوئے  جملہ دوبارہ پڑھ لیں کہ ایک "مسلمان” کو زیبا نہیں دیتا اور رمضان میں تو بالکل نہیں۔ہاں اچھے اسلوب میں تنقید میں کوئی حرج نہیں۔ دوسری جانب  مولاناکے چاہنے والوں سے گذارش  ہےہمیں حق کی بات کرنی چاہیے  خواہ یہ ہماری کسی محبوب شخصیت ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔

ڈاکٹر محمد عقیل

پیراڈائم شفٹ

کلاس میں سامنے بیٹھی لڑکی کے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا اور ساتھ ہی ہو کچھ کھا بھی رہی تھی۔ میں  کلاس لے رہا تھا اور یہ کوئی دس سال قبل کا واقعہ ہے۔ کلاس میں اس طرح دھڑلے سے کھانا پینا کلاس کے ڈیکورم کے خلاف تھا۔ میں کچھ دیر برداشت کرتا رہا لیکن وہ لڑکی جوس پیتی رہی۔ پھر اس نے غالبا میرے چہرے کے تاثرات بھانپ لیے اور بولی۔ سر مجھے گردوں کی بیماری ہے اور میں ڈائلے سس پر ہوں اور شوگر بھی ہے۔ ڈاکٹر نے مجھے بھوکا پیاسا رہنے سے منع کیا ہے اس لیے میں  کلاس میں جوس پینے پر مجبور ہوں اس کے لیے میں معذرت چاہتی ہوں۔ یہ سن میں میرا پیراڈائم  شفٹ ہوگیا اور زاویہ نگاہ بدل گیا۔ میں سوچنے لگا اگر میں تحقیق کیےبنا اس لڑکی کو ڈانٹ دیتا یا کلاس سے نکال دیتا تو یقینا یہ زیادتی ہوتی۔

رمضان کے مہینے میں عین ممکن ہے آپ کو کوئی شخص  اپنے گھر ، دفتر یا کسی مقام پر کھاتا ہوا یا پانی پیتا ہوا نظر آئے۔ اس سے قبل کہ آپ اس  کے بارے میں الٹا سیدھا سوچیں ، اسے کچھ کہیں یا خود کو روزے دار سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہوجائیں ، ایک منٹ رک جائیے اور حسن ظن سے کام لیجے ۔ عین ممکن ہے وہ بیمارہو، غیر مسلم ہو، ایسی خاتون ہو جو روزہ نہ رکھ سکتی ہو وغیرہ۔ ہمارا ایک منٹ کے لیے رک جانا اس سے تو روزہ نہیں رکھواسکتا البتہ ہمار ا روزہ ضرور بچا سکتا ہے ۔

ڈاکٹر محمد عقیل

زلیخا اور یوسف

زلیخا جب  حضرت یوسف کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوگئی اور اس کی حضرت یوسف کو لبھانے کی  کوشش ناکام بھی ہوگئی تو یہ خبر شہر میں پھیل گئی۔ بالخصوص مصر کے اعلی طبقے کی عورتیں زلیخا پر لعن طن کرنے لگیں کہ وہ اپنے غلام کی محبت میں گرفتار ہوگئی ہے۔ زلیخاکو یہ سب باتیں سن کر بڑی پریشانی ہوئی۔ وہ اس پریشانی کے عالم میں ایک بزرگ کے پاس گئی اور ان کو بتایا کہ کس طر ح عورتیں اس کا مذاق بنا رہی ہیں۔ بزرگ مسکرائے اور کہا کہ پریشان نہ ہو، جو تجھے  نظر آتا ہے، وہ ان کو بھی دکھادے۔

چنانچہ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا ا

ور ان سب خواتین کو مدعو کیا۔ اور اچانک یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے آنے کا کہا۔ وہ سب عورتیں مبہوت ہوکر رہ گئیں   اور اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئیں جس میں زلیخا گرفتا رتھی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کر وہی تقاضا کرنا شروع کردیا جو زلیخا کررہی تھی۔ گویا  حضرت یوسف کے مشاہدے سے پہلے وہ خواتین جس بات پر وہ زلیخا کو طنزو رشنیع کا نشانہ بنارہی تھیں ، اس تجربے کے بعد خود اسی دام میں گرفتا ر ہوگئیں۔

دوسری جانب حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو  اپنے رب کی محبت میں گرفتا ر تھے۔ انہوں نے بھی رب کی برھان کا مشاہدہ کررکھا تھا، انہیں علم تھا کہ ان کے آبا و اجداد یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم کا خدا ان غیر اخلاقی باتوں کو سخت ناپسند کرتا  ہے۔ چنانچہ وہ اپنے محبوب کی رضا سے بندھ گئے۔ اس نوجوانی کے عالم میں نہ صرف ان آفرز کو ٹھکرادیا بلکہ خود اپنے محبوب سے درخواست کی کہ ان عورتوں سے بچنے کے لیے اگر مجھے قید بھی کردیا جائے تو قبول ہے۔ چنانچہ درخواست قبول کرلی گئی اور قید ہوگئی۔

دونوں محبتوں کو دیکھیے۔ ایک زلیخا اور عورتوں کی چاہت اور دوسری حضرت یوسف کی اپنے رب سے محبت۔ زلیخا نفس کی لذت  کی خاطر محبت میں مبتلا تھی تو حضرت یوسف اپنے رب    کی خوشی کے متمنی۔ زلیخا  کو اپنے محبوب (حضرت یوسف ) کی پسند ناپسند کا کوئی خیال نہ تھا اور حضرت یوسف سراپا اطاعت۔ زلیخاظاہری وجود  کی لذت کی متمنی تھی اور حضرت یوسف   باطنی شخصیت کا  ابدی سکون چاہتے تھے۔  زلیخا جذبات میں بہک  کر بدکردار بن  رہی  تھی اور حضرت یوسف نفس پر  قابو کرکے  اعلی کردار کا مظاہر کررہے تھے۔ زلیخا چند لمحوں کی لذت پر تمام اخلاقی اقدار قربان کرنے پر تلی تھی اور حضرت یوسف  عارضی تکلیف جھیل کر خود کو بادشاہت کے لیے اہل ثابت کررہے تھے۔

بالآخر حضرت یوسف کو رہائی ملی اور بادشاہ کا قرب نصیب ہوا جبکہ ان تمام عورتوں کو زلیخا سمیت معافی مانگنی پڑی اور حضرت یوسف کی پاکیزگی کی گواہی دینے پر مجبور ہوگئے  ۔ اس کے بعد ان عورتوں کی کیا جگ ہنسائی ہوئی ہوگی، اس کا تصور ممکن نہیں۔

زلیخا اور حضرت یوسف کا طرز زندگی ایک استعارہ ہے ۔  جو لوگ دنیا  کی محبت میں عارضی لذتوں میں  بہک جاتے ہیں ان کا انجام زلیخا  اور اس کی ساتھیوں کی طرح ہوتا ہے۔ اور جو لوگ اپنے  رب کی محبت میں نفس پر قابو کرکے اعلی اخلاقی اقدار کے امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی ترقی پاکر اعلی مقام حاصل کرتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ابدی نعمتوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد عقیل